• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بدلاپورکے بعد کچھ بدلے گا؟

Updated: August 23, 2024, 1:51 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

۲۰۱۲ء میں نربھیا سانحہ کے بعد محسوس کیا جارہا تھا کہ اب بہت کچھ بدل جائیگا مگر کچھ نہیں بدلا۔ اُس روح فرسا واقعہ کو بارہ سال گزر چکے ہیں جس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ اس نے پورے ملک کو دہلا دیا، لرزا دیا اور جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ۲۰۱۲ء میں  نربھیا سانحہ کے بعد محسوس کیا جارہا تھا کہ اب بہت کچھ بدل جائیگا مگر کچھ نہیں  بدلا۔ اُس روح فرسا واقعہ کو بارہ سال گزر چکے ہیں  جس کے بارے میں  کہا جارہا تھا کہ اس نے پورے ملک کو دہلا دیا، لرزا دیا اور جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جو سماج یہ کہے کہ وہ لرز گیا تھا یا دہل گیا تھا یا جس کا ضمیر جھنجھوڑا گیا، کیا وہ ایسے واقعات کو بار بار ہوتا دیکھ سکتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اُس کا لرزنا لرزنے جیسا نہیں  تھا یا پھر اسے محسوس ہوا کہ ضمیر جھنجھوڑا گیا ہے مگر معاملہ وقتی جھرجھری جیسا تھا۔ ایسا اس لئے کہا جارہا ہے کہ نربھیا سانحہ کے بعد سے لے کر کولکاتا اور بدلا پور کے حالیہ سانحات تک ہمارے ملک میں  کوئی سال ایسا نہیں  گزرا جب خواتین کے خلاف جرائم میں  قابل ذکر کمی آئی ہو۔ ۲۰۲۲ءمیں  خواتین کے خلاف ۴؍ لاکھ ۴۵؍ ہزار جرائم کا ارتکاب کیا گیا یعنی ہر ۵۱؍ ویں  منٹ پر اس نوع کا ایک جرم ہوا۔ ہر سال مختلف جرائم کے بارے میں  تفصیلی اعدادوشمار نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی جانب سے جاری کئے جاتے ہیں ۔ جرم کوئی بھی ہو بہرحال جرم ہے اور قابل سزا ہے مگر خواتین کے خلاف جرائم کی تفصیل دیکھ کر ہوش گم ہوجاتے ہیں  کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ کیا اس کے باوجود ہم خود کو مہذب کہلانے کے قابل رہ جاتے ہیں ؟ پانچویں  بڑی معیشت، سب سے تیز رفتار اکنامی، ہائر جی ڈی پی، امرت کال یا وشو گرو جیسے تمام نعرے او ر دعوے اُس وقت ہمارا منہ چڑانے لگتے ہیں  جب این سی آر بی ’’جرائم نامہ‘‘ جاری کرتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھیئے:بدلے بدلے سرکار، بدلی بدلی سرکار

 اس میں  شک نہیں  کہ ہر طرح کے بالخصوص خواتین کے خلاف جرائم کو روکنے کیلئے قانون کا سختی سے نفاذ کی ضروری ہے، نفاذِ قانون کے ذمہ داروں  کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے، معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہو تو ذمہ داروں  کو سزا ملنی چاہئے اور ’’زیرو ٹالرنس‘‘ کی پالیسی اختیار کی جانی چاہئے مگر اس کے ساتھ ہی اور بھی کئی اقدامات ضروری ہیں ۔ یہ سر کا درد نہیں  ہے کہ ایک ٹیبلیٹ لی اور درد کافور ہوگیا۔ اس کیلئے کثیر جہتی اقدامات ناگزیر ہیں  لہٰذا سب سے زیادہ کوشش اس بات کی ہونی چاہئے کہ سماج میں  خواتین کے احترام کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ یہ تو قانون کے ذریعہ نہیں  ہوسکتا۔ اس کیلئے بیداری لانے کے ہر ذریعہ کا استعمال کرنا ہوگا۔ گھر میں  والدین، اسکولوں  اور کالجوں  میں  اساتذہ، سماج میں  سربرآوردہ لوگ، سبکدوش ججوں  کی انجمنیں ، سابق پولیس افسران کی تنظیمیں ، میڈیا سے وابستہ موجودہ او ر سبکدوش افراد، فلم اور ڈراما نویس حضرات اور دانشور طبقہ۔ جب ان تمام کی جانب سے خواتین کے احترام پر زور دیا جائیگا تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں  مگر آپ دیکھئے کہ یہ کام کون کررہا ہے؟ کیا کوئی کررہا ہے؟
 یہ موضوع اتنا بڑا ہے اور اس کا ہر پہلو اتنی وسعت چاہتا ہے کہ ایک مختصر تحریر میں  پوری بات کہنا تو دور، شروع کرنا بھی مشکل ہے۔ اسی لئے، ہم اتنا کہنے پر اکتفا کرینگے کہ جرم کا جواز پیش کرنے سے بھی گریز کیا جانا چاہئے۔ جب منی پور کے ایک ویڈیو کے خلاف ملک بھر میں  غم و غصہ تھا اور وزیر اعظم سے بیان دینے کا مطالبہ کیا جارہا تھا تب اُنہوں  نے منی پور واقعہ کی مذمت تو کی مگر اُس کے ساتھ راجستھان کو بھی جوڑ دیا تھا۔بلاشبہ یہ سیاسی بیان تھا مگر جرم کا جواز جرم کے ذریعہ پیش کرنے سے جرم کا دفاع ہوتا ہے، جرم کو روکنے کی ابتداء نہیں  ہوتی ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK