۶؍ دسمبر کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ آج سے ٹھیک ۳۲؍ سال پہلے ایودھیا میں جو ہوا وہ مسلمانوں ہی نہیں ملک کے تمام انصاف پسندوں کیلئے اجتماعی صدمہ کا باعث تھا۔ اُس وقت اور بعد کے اَدوار میں محسوس کیا جارہا تھا کہ جو نسل ایودھیا میں فرقہ پرستوں کی دھماچوکڑی کے بیچ حق و انصاف کی تمام روایات اور اقدار کو ملیا میٹ ہوتا دیکھ رہی تھی وہ تو آخری دم تک اس سانحہ کو یاد رکھے گی مگر بعد کی نسل کا کیا ہوگا؟
۶؍ دسمبر کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ آج سے ٹھیک ۳۲؍ سال پہلے ایودھیا میں جو ہوا وہ مسلمانوں ہی نہیں ملک کے تمام انصاف پسندوں کیلئے اجتماعی صدمہ کا باعث تھا۔ اُس وقت اور بعد کے اَدوار میں محسوس کیا جارہا تھا کہ جو نسل ایودھیا میں فرقہ پرستوں کی دھماچوکڑی کے بیچ حق و انصاف کی تمام روایات اور اقدار کو ملیا میٹ ہوتا دیکھ رہی تھی وہ تو آخری دم تک اس سانحہ کو یاد رکھے گی مگر بعد کی نسل کا کیا ہوگا؟ کیا اِس سانحہ سے وہ کوئی مطابقت پیدا کرسکے گی؟
۳۲؍ سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کی نسلوں نے بھی بابری مسجد کی تباہی و مسماری اور شہادت کے واقعہ کو اُسی طرح ذہن میں محفوظ رکھا ہے جس طرح وہ اُس وقت موجود لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوا اور اب بھی ہے۔ ۹۲ء کے بعد سے اب تک کم از کم دو نسلیں تو آچکی ہیں ۔ اس دوران ایک بات یہ بھی ہوئی کہ قدرت نے اس واقعہ کے یاد رکھے جانے کا خود انتظام فرما دیا۔ وہ اِس طرح کہ تب سے لے کر اب تک ہزار بار اس واقعہ کا ذکر ہوا اور اس کا حوالہ دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں ، نئی نسل میں بھی ایسے انصاف پسند افراد پیدا ہوئے اور ہر طبقے اور فرقے میں پیدا ہوئے، جنہوں نے واقعات کی تفصیل جانی تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے کہ ۶؍ دسمبر کو ایودھیا میں جو کچھ ہوا غلط تھا، انصاف کے منافی تھا، جمہوریت کی رُسوائی تھا۔
اس میں شک نہیں کہ بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا، عدالت نے عدل و انصاف پر مبنی فیصلہ دینے کے بجائے سیاسی فیصلہ دیا اور جو بنیادی سوال مقدمہ کے ذریعہ اُٹھایا گیا تھا اُس کا جواب دینے سے منہ موڑ لیا مگر پورا فیصلہ آج بھی گواہی دے رہا ہے کہ ملکیت کا مقدمہ مسلمانوں کے حق میں فیصل ہوا، یہ الگ بات ہے کہ زمین مسلمانوں کو نہیں دی گئی، وہ دوسرے فریق کو دے دی گئی مگر یہ ثابت ہوجانا کہ کسی مندر کو گرا کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی، اپنے آپ میں بہت بڑی بات تھی۔ مسلمان، اگر بظاہر نہیں تو بباطن، قانونی لڑائی جیتے۔ اُن کا نقصان صرف اتنا ہوا کہ مسجد، جو شہید کی جاچکی تھی، اُس کی زمین کی بازیابی میں وہ ناکام رہے۔ مگر یہ اُن کی ناکامی نہیں تھی، یہ اُس نظام کی ناکامی تھی جس نے حالات کو اِس حد تک بگڑنے دیا کہ عدالت کو انصاف کے بجائے مصلحت سے کام لینا پڑا۔
یہ بھی پڑھئے : فل اسٹاپ تو لگانا ہی پڑیگا
۶؍ دسمبر یاد ہے اور یاد رہے گا۔ اسے تب تب یاد کیا جائیگا جب جب کسی گروہ یا فرقہ کے ساتھ انصاف کے تمام تر لوازمات، شواہد اور حقائق موجود ہوں مگر فیصلہ اُس کے حق میں نہ ہو۔ اسے تب تب یاد کیا جائیگا جب جب کسی طبقے کو اس لئے اپنا حق گنوانا پڑےگا کہ وہ اقلیت میں ہے۔ اسے تب تب یاد کیا جائیگا جب جب عدالت ایسے فیصلے سنائے گی جو متعلقہ مقدمات کے برسوں تک معرض التواء میں رہنے یا سماعتوں کے طویل دور سے گزرنے کے باوجود فطری انصاف کی راہ ہموار نہیں کرسکے۔ ۶؍ دسمبر۹۲ء کے بعد بہت سے انصاف پسند دانشوروں اور لیڈروں نے کہا تھا کہ یہ دن اُنہیں شرمندہ کرتا رہے گا۔ آج شرمندگی کے الفاظ سننے کو نہیں ملتے مگر بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کا احساس بولتا ہے اور شرمندگی جھلکتی ہے۔ اس پس منظر میں ضروری ہے کہ وطن عزیز ۶؍ دسمبر کو ایسے دن کے طور پر یاد رکھے جس کا قرض مسلمانوں کے حق میں واجب الادا ہے اور اسے ادا کیا جانا چاہئے خواہ کسی شکل میں ہو، کسی انداز میں ہو، جلد ہو یا تاخیر سے ہو۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ہر ناانصافی کو انصاف سے بدلا جائے۔