Updated: December 05, 2024, 1:42 PM IST
| Mumbai
شاہی جامع مسجد (سنبھل)، جامع مسجد ِ شمسی (بدایوں)، جامع مسجد (دہلی) اور درگاہ ِ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ (اجمیر) جیسی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو متنازع بنانے کے پس پشت کیا سازش ہے اور اس کے ذریعہ فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کے ذریعہ کس وسیع تر مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
جامع مسجد، نئی دہلی۔ تصویر: آئی این این
شاہی جامع مسجد (سنبھل)، جامع مسجد ِ شمسی (بدایوں)، جامع مسجد (دہلی) اور درگاہ ِ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ (اجمیر) جیسی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو متنازع بنانے کے پس پشت کیا سازش ہے اور اس کے ذریعہ فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کے ذریعہ کس وسیع تر مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مذکورہ بالا نام اُس فہرست کے تازہ اضافے ہیں جو فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں پہلے سے موجود ہے اور جس میں گیان واپی مسجد (بنارس)، کمال مولیٰ مسجد (دھار، مدھیہ پردیش) اور شاہی عید گاہ (متھرا) جیسی کئی مساجد اور مقدس مقامات کے نام درج ہیں۔ بابری مسجد کے خلاف طومار باندھ کر اور پھر اسے شہید کرکے جن غیر قانونی اور غیر جمہوری منصوبوں کو روبہ عمل لایا گیاتھا، اُنہی منصوبوں کو نت نئے مقامات کے خلاف آزمایا جارہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس سلسلے کی سرگرمی بڑھ گئی ہے۔ اس ضمن میں کئی باتیں کہی جاسکتی ہیں مگر ہمارا ایک سوال ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ سے ہے اور دوسرا سوال ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے پارلیمنٹ سے ہے:
یہ بھی پڑھئے: گاؤں ہارا نہیں ، جیت گیا!
سپریم کورٹ سے سوال یہ ہے کہ جب آپ ہی کے ذریعہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون ۱۹۹۱ء کی توثیق پہلے ۱۹۹۴ء میں اور پھر ۲۰۱۹ء میں کی گئی، اس قانون کو سو فیصد حق بجانب قرار دیا گیا حتیٰ کہ اس کے وضع کئے جانے کے منشاء و مقصد کی ستائش کی گئی تب کیا وجہ تھی کہ ۲۰۲۳ء میں اسی قانون کو فراموش کرتے ہوئے گیان واپی مسجد کے سروے کی اجازت دی گئی؟ انصاف کی خاطر پورے ملک کی نگاہ سپریم کورٹ پر ہوتی ہے اور اگر سپریم کورٹ اپنے ہی ساتھ انصاف نہ کرے تو تصورِانصاف کا کیا بنے گا؟ اس صورت حال میں بھی سپریم کورٹ ہی سے رہنمائی طلب کی جائیگی۔ اُسے بتانا چاہئے کہ اب جگہ جگہ نئے جھگڑے شروع کرنے کی مکروہ اور نفرت انگیز کوششوں پر روک کیسے لگے گی؟ ہم، چیف جسٹس کھنہ سے اُمید کرتے ہیں کہ گیان واپی کے متنازع فیصلے کے مضمرات اور عواقب پر غور کرتے ہوئے کسی بھی عبادت گاہ کے سروے کی اجازت نہ دینے کی راہ نکالیں کہ عدلیہ کے حق میں بھی یہی بہتر ہے ورنہ آئے دن نت نئی مسجدوں اور کلیساؤں پر دعوے دائر ہوتے رہیں گے اور عدالت کا وقت اسی نوع کے مقدمات پر صرف ہوتا رہے گا۔ عدالتوں کے سامنے فوری سماعت کے منتظر کیا کم مقدمات ہیں۔ کیوں نہ اُن پروقت دیا جائے اور غیر ضروری مقدمات سے بچا جائے؟
ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے یعنی پارلیمنٹ سے سوال یہ ہے کہ اگر یہ ادارہ تین دہائی سے زیادہ عرصہ پہلے اپنے ہی ذریعہ بنائے گئے قانون سے چشم پوشی کرے گا اور اس کی خلاف ورزی کے بڑھتے ہوئے مظاہر کا نوٹس نہیں لے گا تو اس سے کس کا وقار مجروح ہوگا؟ ’’جمہوریت کے سب سے بڑے مندر‘‘ کی اِس کی شناخت پر حرف آئیگا تو کون ذمہ دار ہوگا؟ اگر حکمراں جماعت نے سروے کی عرضیاں لے لے کر کورٹ پہنچنے کے عمل کو نہیں روکا تو ملک اسی تنازع سے نمٹتا رہ جائیگا اور حکومت اور اراکین پارلیمان کی وہ ساری بحثیں دھری کی دھری رہ جائینگی جو ملک کی ترقی، پانچ سالہ منصوبہ، دس سالہ یوجنا یا پچاس سالہ ویژن کے عنوانات کے تحت جاری رہتی ہیں؟ ان عرضیوں پر فل اسٹاپ یا تو حکومت لگا سکتی ہے یا پھر عدالت ِ عالیہ، مگر فل اسٹاپ تو لگانا ہی پڑیگا ۔