بیرون ملک، ملک کی شہرت اور ناموری باعث اعزاز ہے۔ ترقی پزیر ملکوں میں کم ہی ممالک ہیں جو آبادی بالخصوص نوجوان آبادی، وسیع تر صارف بازار اور مجموعی گھریلو آمدنی کے سبب اتنے پرکشش ہوں جتنا کہ ہندوستان ہے۔
EPAPER
Updated: October 28, 2024, 2:44 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
بیرون ملک، ملک کی شہرت اور ناموری باعث اعزاز ہے۔ ترقی پزیر ملکوں میں کم ہی ممالک ہیں جو آبادی بالخصوص نوجوان آبادی، وسیع تر صارف بازار اور مجموعی گھریلو آمدنی کے سبب اتنے پرکشش ہوں جتنا کہ ہندوستان ہے۔
بیرون ملک، ملک کی شہرت اور ناموری باعث اعزاز ہے۔ ترقی پزیر ملکوں میں کم ہی ممالک ہیں جو آبادی بالخصوص نوجوان آبادی، وسیع تر صارف بازار اور مجموعی گھریلو آمدنی کے سبب اتنے پرکشش ہوں جتنا کہ ہندوستان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی عالمی اہمیت ہے، ہر طرف اس کی پزیرائی کی جاتی ہے، اس سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں اور اس کی معاشی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ موڈیز جیسی ایجنسیاں دیگر ملکوں کے مقابلے میں ہندوستان کے جی ڈی پی کے اندازے یا پانچ سال بعد اور دس سال بعد کی پیش گوئی کیوں کرتی ہیں ؟ اس لئے کہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے سامنے ہندوستان کا معاشی منظر نامہ کچھ اس طرح موجود رہے کہ جس کو سرمایہ لگانا ہو وہ اس کے اعدادوشمار کو دیکھ کر فیصلہ کرلے، تردد اور تامل سے کام نہ لے۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی ہندوستان کو ترجیح دیتے ہیں ، اس کی جی ڈی پی کے اندازے ظاہر کرتے رہتے ہیں ۔ ہندوستان کے ساتھ یہ رعایت، جو ایک طرح کی اعانت ہے، اس کے کنزیومر مارکیٹ کی وجہ سے ہے۔ اسی لئے اس مارکیٹ کا ہمہ وقت پرکشش بنا رہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس کا بامعنی جمہوریت پر قائم رہنا۔ جمہوریت اس کی شان ہے اور توانا معیشت اس کی جان۔
روزگار اور مہنگائی کی صورت حال بیرونی ملکوں سے مخفی نہیں ہے مگر انہیں اس کا غم نہیں ہے، ان کی نظر جی ڈی پر رہتی ہے، سات فیصد ہے، آٹھ فیصد ہے، دو عددی ہوگئی ہے اور اگر دو عددی ہوگئی ہے تو کب تک رہ سکتی ہے۔ اس کا اندازہ لگانے کیلئے وہ دیگر معاشی معیارات کا جائزہ لیتے ہیں ، اسی لئے دیگر معیارات پر پورا اترنا ضروری ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور سخت ترین لاک ڈاؤن کی وجہ سے کی معیشت کو زبوں حالی کی جس کیفیت سے گزرنا پڑا، اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں ۔ ادھر چند ماہ سے مینوفیکچرنگ کی حالت خراب ہے۔ تازہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مینوفیکچرنگ آٹھ ماہ کی کمترین سطح پر ہے۔ چند روز پہلے ہم بتا چکے ہیں کہ جی ایس ٹی کا کلیکشن، جس پر حکومت بغلیں بجاتیں رہی ہے، کم ہوا ہے۔ کار سیل مسلسل تیسرے ماہ میں کم ترین سطح پر رہا۔ یہ صورت حال، خاص طور پر مینوفیکچرنگ کی ایسی حالت کیوں ہے جبکہ اسکل انڈیا اور میک ان انڈیا کے نعروں کی گونج اب بھی کم نہیں ہے؟ اس کا جواب وزیر مالیات کو ضرور دینا چاہئے۔ حکومت نے کارپوریٹ سیکٹر پر ان معنوں میں خاص عنایت کی تھی کہ کارپوریٹ ٹیکس کم کر دیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ سیکٹر سرمایہ کاری کرے۔ مگر اس نے نہیں کی۔ اب اس سے جواب کون طلب کریگا؟
یہ بھی پڑھئے: مصنوعی ذہانت اور فطری تعلیم
امید تھی کہ بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹوں میں حکومت کی غیر معمولی سرمایہ کاری سے روزگار کی صورت حال بدلے گی، مارکیٹ میں صارف اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں سپلائی بڑھے گی اور صنعتی و تجارتی سرگرمیوں میں نئی جان پڑے گی۔ مگر انفراسٹرکچر معرض وجود میں آنے کے باوجود روزگار کی صورت حال نہیں بدلی ہے۔ یہ بھی ایسا راز ہے جس پر سے حکومت اور اس کی متعلقہ وزارت اور محکمے ہی پردہ اٹھائیں تو ان کی اہمیت ہوگی ورنہ ہر بات قیاس اور اندازہ ہی کہلائیگی۔ کیا حکومت کوئی وہائٹ پیپر جاری کرسکتی ہے تاکہ عوام جان سکیں کہ کیا ہورہا ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ ڈھیر سارے وسائل کے باوجود ہم مسائل کے چکر ویوہ میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ n