دُنیا میں دو طرح کی حکومتیں ہیں ۔ ایک وہ جو اپنے عوام کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ ملک کی ترقی کی رفتار بڑھانے میں معاون ہوں ، ملک کا نام روشن کریں ، دوسروں ملکوں پر سبقت برقرار رکھنے میں تعاون دیں اور سائنس و تکنالوجی کی پیش رفت کو اس حد تک لے جائیں کہ معیشت کے وارے نیارے ہوں اور دیسی کمپنیاں ترقی کے نئے اہداف مقرر کریں ۔
دُنیا میں دو طرح کی حکومتیں ہیں ۔ ایک وہ جو اپنے عوام کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ ملک کی ترقی کی رفتار بڑھانے میں معاون ہوں ، ملک کا نام روشن کریں ، دوسروں ملکوں پر سبقت برقرار رکھنے میں تعاون دیں اور سائنس و تکنالوجی کی پیش رفت کو اس حد تک لے جائیں کہ معیشت کے وارے نیارے ہوں اور دیسی کمپنیاں ترقی کے نئے اہداف مقرر کریں ۔ دوسری حکومتیں وہ ہیں جو اپنے عوام کی تعلیم کو عملاً کوئی خاص اہمیت نہیں دیتیں شاید اس خیال کے تحت کہ جتنے زیادہ شہری تعلیم یافتہ ہوں گے اُن کی معاشی قوت اُتنی بڑھے گی، وہ سماجی سطح پر اُتنے بااثر ہونگے اور پھر حکومت سے سوال کرنے لگیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی روز تختہ پلٹ دیں ۔ ملکوں یا حکومتوں کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو چاہت اور کوشش کے باوجود اپنے تعلیمی معیار کو بہت بلند کرنے میں ناکام ہیں ۔
یہ بھی پڑھئے: رتن ٹاٹا: کیا خوب آدمی تھا
آخر الذکر دو طرح کی حکومتوں یا ملکوں کی وجہ سے عالمی سطح پر تعلیم کی صورت حال ویسی نہیں ہے جیسی کہ ہونا چاہئے۔ ماہرین کے اندازہ کے مطابق ۲۰۲۳ء میں ۲۴۴؍ ملین (۲۴؍ کروڑ ۴۰؍ لاکھ) بچے اسکولوں میں نہیں تھے۔ انہی ماہرین کا خیال ہے کہ ۲۰۳۰ء تک یہ تعداد کم ہونے کے بجائے بڑھ سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان میں وہی ممالک ہیں جن کی معاشی حالت خستہ ہے مثلاً جنوبی ایشیائی ممالک اور خطۂ افریقہ۔ ترقی یافتہ ملکوں کا فرض ہے کہ معاشی طور پر کمزور ملکوں کو تعلیمی اور طبی امداد فراہم کریں مگر وہ اپنے فر ض کو نہیں سمجھنا چاہتے۔ اسکالرشپ اور فیلوشپ کے ذریعہ جو تعاون دیا جاتا ہے وہ اکثر اُن طلبہ کو ملتا ہے جو پہلے سے سرخرو ہوتے ہیں ۔ہمارے ملک میں امیر گھرانوں کے طلبہ تو اعلیٰ معیاری تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں مگر غریب طلبہ کیلئے تعلیم بوجھ ہوتی ہے۔ اُن کے والدین چاہتے ہیں کہ وہ اسکول جاکر وقت ضائع کرنے کے بجائے کھیتوں میں یا گیراجوں میں یا ریستورانوں میں چھوٹی موٹی ملازمت کرکے دو پیسے کمائیں ۔ اُن کے نزدیک تعلیم اہم نہیں ، دو پیسے اہم ہیں جن سے اُنہیں معاشی مسائل کا مقابلہ کرنے میں تھوڑی بہت مدد مل جاتی ہے۔ اِن میں چند ایک ہی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے تعلیم سے لوَ لگائے رکھتے ہیں اور زندگی میں کچھ کردکھانے کے قابل ہوجاتے ہیں مگر اکثر وہ ہوتے ہیں کہ جن کاموں سے وابستہ ہوئے آئندہ زندگی میں بھی اُنہی سے وابستہ رہے اور زندگی بھر روز کنواں کھودنے اور روز پانی پینے میں مشغول رہے۔سرکاری ذرائع بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں ، ۲۳۔۲۰۲۲ء میں تقریباً ساڑھے بارہ لاکھ طلبہ اسکولوں سے باہر تھے مگر یہ اعدادوشمار کہیں سے بھی حقیقت سے قریب معلوم نہیں ہوتے لہٰذا یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ آزاد ذرائع کیا انکشاف کرتے ہیں ۔ ان ذرائع کا اندازہ ہے کہ ۸؍ کروڑ ۴۰؍ لاکھ طلبہ اسکول نہیں جاتے جن میں ۷۸؍ لاکھ ایسے ہیں جو اسکول تو جاتے ہیں مگر اُنہیں محنت مزدوری بھی کرنی پڑتی ہے۔ ملک میں رائٹ ٹو ایجوکیشن اور رائٹ ٹو فوڈ دونوں موجود ہیں اس کے باوجود بچوں کی یہ حالت افسوسناک ہے۔
خود ہمارے معاشرہ میں اسکول نہ جانے والے بچے بھی ہیں اور اسکول سے رشتہ منقطع کرنے والے بھی۔ انہیں تعلیم سے وابستہ کرنے کی کوئی بڑی مہم ہمارا معاشرہ کبھی شروع نہیں کرسکا۔ تعلیم پر کام ضرور ہوا مگر غریب طلبہ کو قدم قدم پر دشواریوں کا سامنا آج بھی ہے۔ مستحقین امداد زیادہ ہیں ، امدادی ادارے بہت کم ۔