رتن ٹاٹا کے دُنیا سے اُٹھ جانے سے ایسا خلاء پیدا ہوا ہے کہ اگر یہ پُر ہوجائے تو ہندوستانیوں کی خوش قسمتی پر محمول کیا جائیگا۔ رتن ٹاٹا با اُصول صنعتکار تھے۔
EPAPER
Updated: October 12, 2024, 1:52 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
رتن ٹاٹا کے دُنیا سے اُٹھ جانے سے ایسا خلاء پیدا ہوا ہے کہ اگر یہ پُر ہوجائے تو ہندوستانیوں کی خوش قسمتی پر محمول کیا جائیگا۔ رتن ٹاٹا با اُصول صنعتکار تھے۔
رتن ٹاٹا کے دُنیا سے اُٹھ جانے سے ایسا خلاء پیدا ہوا ہے کہ اگر یہ پُر ہوجائے تو ہندوستانیوں کی خوش قسمتی پر محمول کیا جائیگا۔ رتن ٹاٹا با اُصول صنعتکار تھے۔ اُن کی اُصول پسندی صنعتکاروں کی عمومی شبیہ سے مختلف تھی جن کا ایک ہی اُصول ہوتا ہے اور وہ ہے منافع خوری اور صنعتی سرگرمیوں کا پھیلاؤ۔ رتن ٹاٹا اِن معنوں میں دیگر صنعتکاروں سے یکسر مختلف تھے کہ ملک کے بہت بڑے تجارتی گروپ کے بہت بڑے عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود اُنہوں نے زمین سے وابستگی اور اس حوالے سے عام آدمی کی اہمیت کو کبھی مسترد نہیں کیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ کئی ارب روپوں کا کاروبار ہونے کے باوجود اُنہوں نے خو دکو ارب پتیوں کی درجہ بندی اور رینکنگ میں شامل نہیں کیا۔ کبھی آپ نے نہیں سنا ہوگا کہ رتن ٹاٹا ملک کے ارب پتیوں میں اِتنویں نمبر پر ہیں اور عالمی درجہ بندی میں اُن کا مقام اِتنواں ہے۔ جب ۲۰۱۵ء میں مختصر سی ’’نینو‘‘ کا اجراء ہوا تھا تب بہتوں نے اس کار کو مذاق کا موضوع بنایا تھا مگر جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ اس کے پس پشت تجارتی مقصد کم، عوامی مقصد زیادہ ہے تو جس جس پر یہ انکشاف ہوا وہ رتن ٹاٹا کی انسان دوستی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ نینو کی شکل میں اُنہوں نے متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے افراد کیلئے ایسی کار بنائی جسے وہ آسانی سے خرید کر کار مالک ہونے کے اپنے خواب کو، جس کا دیکھنا بھی ممکن نہیں تھا، شرمندۂ تعبیر کردیا تھا۔
صنعتکار کے انسان دوست ہونے کی جو مثال رتن ٹاٹا کی شخصیت میں ملتی ہے، اُسے عالمی سطح پر بھی کم ہی صنعتکاروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے گروپ کے مجموعی منافع کا ۶۰۔۶۵؍ فیصد رفاہی کاموں کیلئے مختص کرتے تھے۔اُن کی قیادت میں کئی ایسے ادارے جو اپنے آپ میں ایک نام ہیں مثلاً ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، سوشل سائنس یا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ کامیابی کے ساتھ جاری و ساری رہے۔ رتن ٹاٹا کی تعلیم ممبئی، شملہ اور اعلیٰ تعلیم نیویارک میں ہوئی تھی جہاں وہ کورنیل یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ آرکیٹکچر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ وطن لوَٹ آئے مگر مادرِ علمی کو فراموش نہیں کیا۔ ۲۰۰۸ء میں ان کی جانب سے ۵۰؍ ملین ڈالر کا عطیہ اِس یونیورسٹی کو ملنے والا سب سے بڑا غیر ملکی عطیہ تھا۔ اُس دَور میں یہ رقم سوا اَرب روپے سے زیادہ تھی۔
یہ بھی پڑھئے: ’’انڈیا‘‘ اتحاد برقرار رہے
رتن ٹاٹا کی سربراہی میں ٹاٹا گروپ کی توسیع اور کم و بیش ۱۰۰؍ ملکوں میں اس کی موجودگی اپنے آپ میں اُن کا بڑا کارنامہ ہے۔ انڈسٹری کے جانکار بتاتے ہیں کہ اُن کی سربراہی میں ٹاٹا گروپ کے کاروبار میں چالیس گنا اور منافع میں ۵۰؍ گنا اضافہ ہوا۔ اس سے اُن کی تجارتی فہم کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ صنعتکار ہونے کے باوجود اُن کا دل عوام اور سماج کیلئے دھڑکتا تھا، اس کا ثبوت اُن کے افکار و خیالات سے بھی ملتا ہے۔ اُن کا یہ کہنا کہ ’’کامیابی کی حقیقی پیمائش اس بات میں مضمر نہیں کہ آپ نے کیا حاصل کیا بلکہ اس بات میں ہے کہ آپ نے اس کے ذریعہ دوسروں کو کتنی ترغیب دی‘‘ ان کی سماج دوستی کو ظاہر کرتا ہے۔ اُن کی کہی ہوئی باتیں اقوال زریں کے طور پر نقل کی جاتی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ پیسہ گننے اور منافع تولنے والے صنعتکار نہیں تھے بلکہ غوروفکر کرنے والا بیدار ذہن رکھتے تھے۔ اُن کاکہنا تھا کہ’’ مَیں صحیح فیصلہ کرنے کی فکر نہیں کرتا بلکہ فیصلہ کرلیتا ہوں پھر اسے صحیح کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔‘‘ رتن ٹاٹا اب اِس دُنیا میں نہیں ہیں مگر اُن کے افکار و خیالات اور اقوال زریں سے آنے والی نسلیں بھی مستفید ہوتی رہیں گی۔