• Sun, 29 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ملک کا جنگلاتی نقصان

Updated: December 28, 2024, 1:40 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اپنے دور اقتدا رمیں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے جہاں منریگا، آر ٹی آئی، آر ٹی ای اور رائٹ ٹو فوڈ جیسے قوانین بنائے وہیں جنگلات کے تحفظ کیلئے فاریسٹ رائٹس ایکٹ بھی بنایا تھا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اپنے دور اقتدا رمیں  سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے جہاں  منریگا، آر ٹی آئی، آر ٹی ای اور رائٹ ٹو فوڈ جیسے قوانین بنائے وہیں  جنگلات کے تحفظ کیلئے فاریسٹ رائٹس ایکٹ بھی بنایا تھا۔ ۲۰۰۶ء میں  وضع کئے گئے اس قانون کا مقصد یہ تھا کہ جنگلا ت میں  رہنے والوں  کے ساتھ ہونے والی ’’تاریخی ناانصافی‘‘ کو ختم کیا جائے اور قبائلیوں  کو وسائل ِ زندگی فراہم کرنے کی جانب پیش رفت ہو اور یہ قانون کے ذریعہ ہو۔ ۱۸؍ سال بعد اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ اس قانون پر کتنا عمل ہوا، عمل ہوا بھی یا نہیں ؟ جہاں  تک ہماری معلومات کا تعلق ہے، آر ٹی آئی کے اختیار کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی، آر ٹی ای کا بھی صحیح طریقے سے اطلاق نہیں  ہوا، منریگا جاری ہے کیونکہ اس کے تحت جاری اسکیم کو بند نہیں  کیا جاسکتا خود بی جے پی کی اقتدار والی ریاستیں  مخالفت کریں  گی اور رائٹ ٹو فوڈ کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم نے اس سے استفادہ کرتے ہوئے ملک کی بڑی آبادی کو مفت راشن کی تقسیم کا منصوبہ بنایا اور اس پر تندہی سے عمل کیا جارہا ہے کیونکہ یہ ایک طرح کا ووٹ بینک (لابھارتھی) ہے مگر فاریسٹ رائٹس ایکٹ کو  بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ جنگلات میں  رہنے والوں  کی فلاح و بہبود تو دور کی بات، جنگلات ہی کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ تشویشناک ہے۔ 
 انڈیا اسٹیٹ آف فاریسٹ رپورٹ ۲۰۲۳ء کے بارے میں  جو اطلاعات ہمیں  ملی ہیں  اُن کے مطابق ملک کے جتنے رقبے پر جنگلات تھے، وہ رقبہ تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے۔ کبھی جنگلات میں  آگ لگ جاتی ہے کبھی جنگلاتی زمین کو غیر جنگلاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مغربی گھاٹوں  اور شمال مشرقی ریاستو ں  کی زمینات کا معتدبہ حصہ جنگلات سے گھرا ہوا ہے مگر پیمائش کی جائے تو ماضی کے مقابلے میں  یہ رقبہ سکڑتا ہوا دکھائی دے گا۔ کئی مقامات پر قانون (فاریسٹ کنزرویشن ایکٹ ۱۹۸۰ء) میں  ترمیم کے ذریعہ بھی ’’ترقیاتی ضرورتوں ‘‘ کا حوالہ دے کر جنگلات کی زمین انفراسٹرکچر کیلئے استعمال کی گئی۔ 

یہ بھی پڑھئے : ایک عالی دماغ تھا، نہ رہا

 ایسا نہیں  ہے کہ جنگل تلف کرنے پر ہی تلف ہوتا ہے، یہ نظر انداز کئے جانے کے سبب بھی تلف ہوتا ہے۔ اسے فاریسٹ ڈیریگولیشن کہا جاتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب جنگل جنگل جیسا نہیں  رہ جاتا بلکہ جھاڑیوں  میں  تبدیل ہوجاتا ہے۔ اگر یہ نہیں  ہورہا ہے تو غیر قانونی قبضہ جات سے جنگلات کو بچانے کیلئے کوئی موثر پالیسی نہیں  ہے۔ پالیسی تو دور، اس جانب توجہ بھی نہیں  ہے یا شایددانستہ چشم پوشی کی جاتی ہے۔جنگلات کے تحفظ کو کس طرح یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے جن میں  کہا گیا ہے کہ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۲۳ء تک ۲۳؍ ہزار ۳؍ سو مربع کلومیٹر کا رقبہ جنگلاتی درختوں  کی چھاؤں  سے محروم ہوچکا ہے۔ یہ رقبہ کئی چھوٹے ملکوں  کے رقبے سے زیادہ ہے۔ اعدادوشمار ہی سے پتہ چلتا ہے کہ ۲۰۱۵ء سے ۲۰۲۰ء کے دوران ملک میں  جنگلاتی اتلاف ہر سال اوسطاً  ۶؍ لاکھ ۶۸؍ ہزار ہیکٹر کی رفتار سے ہوا ہے۔ آسام، میزورم، اروناچل پردیش، ناگالینڈ اور منی پور وہ ریاستیں  ہیں  جہاں  جنگلات کا کافی نقصان ہوا ہے۔  
 آج کے دور کا کوئی ادنیٰ طالب علم بھی بتا دے گا کہ جنگلات کے ختم ہونے سے کیسے ماحولیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ مگر کوئی اعلیٰ لیڈر اس کا اعتراف کرتا ہوا نہیں  ملے گا کہ حکومت جنگلات کے تحفظ میں  کامیاب نہیں   ہوسکی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK