فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے اقوام ِ عالم سے یہ کہہ کر بہت بڑی ’’مصیبت‘‘ مول لے لی کہ اسرائیل کو جو اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے اُس پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ فوراً ہی نیتن یاہو نے فون کردیا اور بائیڈن تلملا کر رہ گئے۔
EPAPER
Updated: October 08, 2024, 1:58 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے اقوام ِ عالم سے یہ کہہ کر بہت بڑی ’’مصیبت‘‘ مول لے لی کہ اسرائیل کو جو اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے اُس پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ فوراً ہی نیتن یاہو نے فون کردیا اور بائیڈن تلملا کر رہ گئے۔
فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے اقوام ِ عالم سے یہ کہہ کر بہت بڑی ’’مصیبت‘‘ مول لے لی کہ اسرائیل کو جو اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے اُس پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ فوراً ہی نیتن یاہو نے فون کردیا اور بائیڈن تلملا کر رہ گئے۔ ممکن ہے کچھ کہا بھی ہو۔ یہ بات وثوق سے اس لئے کہی جاسکتی ہے کہ چند ماہ پہلے ہی بائیڈن نے فرانس کو ’’اَوَر فرسٹ فرینڈ‘‘ (ہمارا اولین دوست) قرار دیا تھا۔ صرف نیتن یاہو اور بائیڈن ہی نہیں ، اور بھی کئی حکمرانوں نے میکرون کو فون کرکے سمجھایا ہوگا کہ میاں ، تم اپنے آدمی ہو، یہ کیسی بات کہہ دی تم نے؟تم بائیڈن سے کچھ نہیں سیکھ سکتے جو وقفے وقفے سے غائب دماغ ہوجاتے ہیں مگر اِس ذہنی کیفیت میں اسرائیل کو کچھ نہیں کہتے بلکہ اس کی امداد بدستور جاری رکھتے ہیں !
ان نصیحتوں اور مشوروں کے بعد میکرون نے اچانک بیدار ہونے والے اپنے ضمیر کو اور یکایک جاگ پڑنے والی انسانیت کو ’’سوری‘‘ کہہ کر دوبارہ سلا دیا ہوگا۔ ایسا نہ ہوتا تو اُن کے ملک کی جانب سے یہ بیان جاری نہ ہوتا کہ اسرائیل اُن کے ملک کا یعنی فرانس کا دوست ہے۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا جیسے کچھ لکھتے وقت حرف غلط کو فوراً کاٹا جاتا ہے چنانچہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ میکرون نے جو کچھ کہا، کیا غلطی سے کہہ گئے؟ اگر غلطی سے کہا تھا تب بھی اُنہیں ضمیر کی آواز چند ہفتے یا چند مہینے تک تو سنتے رہنا چاہئے تھا، جو انسانیت جاگی تھی اُسے جاگنے دینا چاہئے تھا، اس کے نتیجے میں ممکن تھا کہ وہ اقوام عالم کو غیرت دلاتے، کچھ کو شرمسار کرتے اور کچھ کو عالمی امن کے تعلق سے اُن کی ذمہ داری یاد دِلاتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھئے: جانے والو ذرا مڑ کے دیکھو
ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ مغرب کے یہ سارے حکمراں ناممکن کو ممکن کرسکتے ہیں مثلاً یوکرین کے خلاف روس سے صلح کرسکتے ہیں مگر اسرائیل کے خلاف فلسطین، لبنان یا ایران سے مصالحت نہیں کرسکتے اور جنگ نہیں رُکوا سکتے جو پھیلتی جارہی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ۴۲؍ ہزار بے گناہ اہل غزہ شہید ہوئے جن میں بچے بھی ہیں خواتین بھی، طلبہ بھی ہیں اور ضعیف بھی، اس دوران ہزاروں زخمی ہوئے، ہزاروں لاپتہ ہیں ، پورا انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا اورظلم و جبر کی ایسی تاریخ لکھ دی گئی کہ آنے والی نسلیں انہیں معاف نہیں کرینگی مگر ان حکمرانوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی، اقوام متحدہ گوکہ یرغمال ہے مگر اس نے کچھ کہا بھی تو کسی نے اُس کو اہمیت نہیں دی حتیٰ کہ اسرائیل نے انتونیو غطریس کے خلاف بیان دے دیا مگر کسی نے جنبش تک نہیں کی۔ یہ شاید اس لئے ہے کہ کئی دہائیاں گزریں انہوں نے اپنے دماغ سے سوچنا اور اپنی آنکھ سے دیکھنا بند کردیا ہے۔ ان کا دماغ اور ان کی آنکھ تل ابیب کے پاس رہن رکھی ہوئی ہے۔ یہ اُسے اسلحہ بھی دیتے ہیں اور پیسہ بھی۔ اس کی ’’سلامتی‘‘ کی اپنے سے زیادہ فکر کرتے ہیں اور اس کیلئے اپنے آپسی تنازعات کو فراموش کرکے سمجھتے ہیں کہ درجات بلند ہونگے، انتخابی کامیابیاں ملیں گی، اقتدار سلامت رہے گا، دیگر ملکوں سے بہتر تعلقات کی ضمانت ملے گی اور بھرپور معاشی فائدہ حاصل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں یہ بھی نہیں سو‘جھتا کہ غزہ کے قتل عام کے باوجود یہ لوگ کس منہ سے پوری دُنیا میں امن کا ڈھنڈورہ کیسے پیٹیں گے؟ مگر انہیں آئندہ کی خجالت کا احساس نہیں ہے کیونکہ خجالت ہی سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔خجل تو وہ ہوتا ہے جو غیرتمند ہو۔ انہوں نے اقوام متحدہ کو بھی روک رکھا ہے کہ بُرا کہنا ہے تو اپنی قراردادوں میں کہہ دو مگر اسرائیل کا بُرا مت کرو۔