انتخاب ایسے بھی جیتا جا سکتا ہے، ویسے بھی۔ مفت اناج دے کر بھی اور مناسب کام دے کر بھی۔ احترام انسانیت تو یہ ہے کہ کام دیا جائے تاکہ انسان محنت کرے، کمائے اور اپنی محنت نیز کمائی پر فخر کرے، اس کا سر اونچا رہے۔ مفت راشن اس کی غیرت کو تھپکی دے کر سلانا ہے۔ ا
انتخاب ایسے بھی جیتا جا سکتا ہے، ویسے بھی۔ مفت اناج دے کر بھی اور مناسب کام دے کر بھی۔ احترام انسانیت تو یہ ہے کہ کام دیا جائے تاکہ انسان محنت کرے، کمائے اور اپنی محنت نیز کمائی پر فخر کرے، اس کا سر اونچا رہے۔ مفت راشن اس کی غیرت کو تھپکی دے کر سلانا ہے۔ اس سے پیداواریت میں ہونے والا اضافہ بھی رکا رہے گا اور جی ڈی پی کو جہاں پہنچنا چاہئے نہیں پہنچے گی۔ ارباب اقتدار بہت سے سوالوں کو اعدادوشمار کے بظاہر خوشنما قالین میں اس طرح چھپا دیتے ہیں کہ جس کو بغلیں بجانا ہے اسے بھرپور موقع ملے اور جس کو تنقید کرنا ہے، کرے، اس کی دلیلوں کو صدا بہ صحرا بنا دیا جائیگا۔ گزشتہ برسوں کے دوران یہی ہوا ہے۔ ۸۰؍ کروڑ لوگوں کو مفت راشن تقسیم ہورہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ غربت زدہ خاندانوں کی تعداد صرف ۵ ؍فیصد رہ گئی ہے۔ جاں نثار اختر نے اس صورت حال کو اپنے لفظوں میں یوں بیان کیا تھا:
ہم نے انسانوں کے دکھ درد کا حل ڈھونڈ لیا =کیا برا ہے جو یہ افواہ اڑا دی جائے
شاعر نے اسے افواہ کہا تھا، اعداد و شمار اسے حقیقت بتاتے ہیں اور کل میں ، آج میں یہی فرق ہے کہ کل تک افواہ اڑائی جاتی تھی اب افواہ کو حقیقت بتا کر اڑایا جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ’’غربت کم ہوئی ہے‘‘ اور مفت راشن بٹ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:راہل اور ریحان کا ویڈیو
مسئلہ غربت کو ناپنے کے طریقوں اور اس نیت کا ہے جس کے تحت ایسے پُرفریب طریقے وضع کئے جاتے ہیں ۔ غربت کاغذ پر کم ہوئی ہے اور زمین پر بڑھ گئی ہے۔ بڑھی اس طرح بھی ہے کہ کل تک جو غریب نہیں کہلاتے تھے اور خود کو غریب مانتے بھی نہیں تھے، افراط زر اور صارفیت نے ان کی آمدنی چھیننے کی رفتار تیز کردی جس کے نتیجے میں پس انداز شدہ جو رقم ان کی ڈھارس بندھاتی تھی، یا تو اس کا دائرہ سمٹ گیا ہے یا دائرہ معدوم اور صرف مرکز باقی ہے۔ یہ ’’نئے غریب‘‘ ہیں جو متوسط طبقے سے پھسل کر خط افلاس کی جانب بڑھے ہیں ۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے غریب ہو جانے کا اعلان نہیں کرسکتا۔ اسے اپنی سماجی ساکھ کی فکر رہتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اسے تو کسی سے قرض لینے میں بھی تکلف ہوتا ہے اس لئے اس طبقے کے افراد بینک کا دروازہ کھٹکھٹا کر خاموشی سے قرض لینا پسند کرتے ہیں اور ای ایم آئی کی فکر پال لیتے ہیں ۔ یہ غریبوں کا نیا طبقہ ہے جس کی غربت کو کوئی بھانپ نہیں سکتا۔
کل تک جو لوگ نئے نئے امیر بنتے تھے انہیں ’’نو دولتئے‘‘ کہا جاتا تھا۔ نئے غریبوں کو اب تک کوئی نام نہیں دیا گیا ہے مگر نودولتئے کی اصطلاح سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں ’’نو غریبئے‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ جو نودولتئے ہوتے ہیں ان کے رنگ ڈھنگ بتا دیتے ہیں کہ ان کے پاس نئی نئی دولت آئی ہے۔ نو غریبئے اپنے رنگ ڈھنگ سے ایسا کچھ ظاہر نہیں کرتے۔اعدادوشمار والے ماہرین ان سے بہت خوش رہتے ہونگے کہ کتنے اچھے لوگ ہیں غریب ہوکر خود کو غریب نہیں کہتے۔ مگر یہ نئے نویلے غریب ہوں یا پرانے غریب یا وہ جو جنم جنم سے غریب ہیں ، یہ سب ان لوگوں سے بہتر ہیں جنہوں نے اپنے سامان کے ساتھ یہاں سے کمائی ہوئی دولت باندھی اور دوسرے ملکوں کی شہریت اختیار کرلی۔ ارب پتی کہلانے والے ان بے وفا لوگوں کی بے وفائی بہت کچھ کہتی ہے۔ انہیں شاید ملک کے غریبوں کی حقیقی آبادی کا اندازہ ہے۔