راہل گاندھی نے جب پد یاترا شروع کی تو اُن کا کہنا تھا کہ مَیں نے لوگوں سے بہت سیکھا جو مجھے ملنے کیلئے آتے تھے۔ اسی دوران ایک ملاقات میں موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا تھا کہ ’’آپ نفرت کے بازار میں محبت کی دُکان کھول رہے ہیں ‘‘۔
EPAPER
Updated: November 03, 2024, 2:53 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
راہل گاندھی نے جب پد یاترا شروع کی تو اُن کا کہنا تھا کہ مَیں نے لوگوں سے بہت سیکھا جو مجھے ملنے کیلئے آتے تھے۔ اسی دوران ایک ملاقات میں موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا تھا کہ ’’آپ نفرت کے بازار میں محبت کی دُکان کھول رہے ہیں ‘‘۔
راہل گاندھی نے جب پد یاترا شروع کی تو اُن کا کہنا تھا کہ مَیں نے لوگوں سے بہت سیکھا جو مجھے ملنے کیلئے آتے تھے۔ اسی دوران ایک ملاقات میں موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا تھا کہ ’’آپ نفرت کے بازار میں محبت کی دُکان کھول رہے ہیں ‘‘۔ یہ جملہ مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں نے اسے اپنی تقریر میں کئی بار استعمال کیا اور یہ نعرہ بن گیا۔ اس سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں ۔ اول یہ کہ راہل گاندھی جب عوام سے ملتے ہیں تو محض ملنے کیلئے نہیں ملتے بلکہ اپنے دعوے کے مطابق سیکھنے کیلئے ملتے ہیں ۔ ایک جملے سے کچھ سیکھ کر نعرہ بنادینے کی حقیقت ہمارے سامنے ہے جو اوپر درج کی گئی۔ اُن کا یہ نعرہ کافی مشہور ہوا۔ دوسری بات یہ کہ سیکھنے کی باتوں کو وہ ذہن میں محفوظ ہی نہیں رکھتے، اُنہیں رو بہ عمل بھی لاتے ہیں ۔
مذکورہ نعرے کے بارے میں ایسا لگتا تھاکہ ماہرین کی جو ٹیم اُن کی معاون ہے، اُس کے کسی رُکن نے یہ نعرہ گڑھا ہوگا۔ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہو نہ ہو کسی اُردو جاننے والے نے اس کی تخلیق میں حصہ لیا ہوگا۔ مگر جب اُنہوں نے انکشاف کیا تب علم ہوا کہ یہ کسی معاون کا عطیہ نہیں ، عوام میں سے کسی نے اُن کی نذر کیا تھا۔
بہرکیف، راہل کا عوام کے مختلف طبقات سے ملنے جلنے کا یہ عمل ہنوز جاری ہے اور وہ آئے دن کسی نہ کسی فرد سے یا ملازمین کے کسی گروہ سے ملاقات کرتے ہیں خواہ وہ حمالوں سے مل رہے ہوں یا موٹر مینوں سے، کسی بڑھئی سے مل رہے ہوں یا جوتا سازی کرنے والے سے۔ جہاں تک ہمارے مشاہدہ کا تعلق ہے، اُن کے یوٹیوب چینل پر جب وہ ان ملاقاتوں کا ویڈیو جاری کرتے ہیں تو اسے دیکھنے والوں کی تعداد لاکھو ں میں ہوتی ہے۔ اس سے اُن کی مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جو روز افزوں ہے۔ اسی مقبولیت نے مخالف خیمے کے اُن لوگوں کی زبانوں کو گنگ کردیا ہے جو راہل کے ہر عمل اور ہر بیان میں تضحیک و تحقیر کا کوئی نہ کوئی پہلو ڈھونڈ لیتے تھے اور اُن پر تنقیدوں کی بوچھاڑ کردیتے تھے۔ اب وہ کچھ نہیں کہتے کیونکہ دیکھ رہے ہیں کہ راہل بہت تیزی سے اپنی جگہ بناتے جارہے ہیں اور اُن کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ مگر یہ ستم ظریفی دیکھئے کہ اگر مخالفین چپ ہو گئے ہیں تو تنقید کی ’’کمی‘‘ کو میڈیا پورا کررہا ہے جسے گودی میڈیا کہا جاتا ہے۔ گزشتہ روز ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گشت کرتی رہی جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ راہل گاندھی اپنے بھانجے ریحان واڈرا کے ساتھ سونیا گاندھی کی رہائش گاہ کی دیوار پینٹ کررہے ہیں ۔ اس ویڈیو کی خبر جاری کرتے وقت لکھا گیا کہ ’’کیا یہ سافٹ لانچ ہے؟‘‘ یعنی کیا یہ بھانجے میں سیاست میں متعارف کرانے کی کوشش ہے؟
یہ بھی پڑھئے:ہند کنیڈا: تلخی دور کیجئے
اس ویڈیو کے ذریعہ راہل گاندھی نے اُن مزدوروں کو خراج تحسین پیش کیا ہے جو تہواروں کے موقع پر لوگوں کے گھروں کا رنگ و روغن کرتے ہیں اور جن کی محنت سے لوگوں کے گھر روشن ہوتے ہیں ، اُن کی دیواروں میں جاذبیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ اِدھر کافی عرصے سے راہل گاندھی کا خاص موضوع سخن ہے۔ وہ محنت مزدوری کرنے والوں کی حق میں مسلسل بول رہے ہیں اور یہ پیغام عام کررہے ہیں کہ ملک کے دستکاروں میں ہنر مندی کی کوئی کمی نہیں ہے، کمی ہے تو اُن کی ستائش کرنے اور حق محنت ادا کرنے کی۔ ایسے دور میں جب ہر چیز مشینوں کے سپرد کی جارہی ہے اور آٹومیشن کا بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے، راہل کی یہ مہم بہت معنی خیز ہے ۔