ہائپوتھرمیا کا مریض ایسا شخص ہوتا ہے جو ناقابل برداشت ٹھنڈ کا شکار ہو اور کافی دیر تک اسی حالت میں رہے یعنی اُس کے جسم کا درجۂ حرارت بہت کم ہوجائے۔
EPAPER
Updated: January 11, 2025, 1:51 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ہائپوتھرمیا کا مریض ایسا شخص ہوتا ہے جو ناقابل برداشت ٹھنڈ کا شکار ہو اور کافی دیر تک اسی حالت میں رہے یعنی اُس کے جسم کا درجۂ حرارت بہت کم ہوجائے۔
ہائپوتھرمیا کا مریض ایسا شخص ہوتا ہے جو ناقابل برداشت ٹھنڈ کا شکار ہو اور کافی دیر تک اسی حالت میں رہے یعنی اُس کے جسم کا درجۂ حرارت بہت کم ہوجائے۔ جسم کی گرمی کے غیر معمولی حد تک کم ہوجانے کی وجہ سے دماغ ماؤف ہوجاتا ہے اور چلنے پھرنے کی سکت ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے حرکت ِ قلب متاثر ہوتی ہے اور اس کے بند ہوجانے کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے۔
اِن دنوں ، وطن عزیز میں کورونا جیسی بیماری (ہیومن میٹانیومووائرس، ایچ ایم پی وی) کی وجہ سے فکر و تشویش کی نئی لہر دوڑی ہوئی ہے مگر ہم نہ تو ’’نئے کورونا‘‘ کی بات کررہے ہیں نہ ہی ہائپوتھرمیا سے اس کا کوئی تعلق جوڑنا چاہتے ہیں ۔ یہاں ہائپوتھرمیا کا موضوع اس لئے چھیڑا گیا ہے کہ موصولہ خبروں کے مطابق، غزہ کے شیر خوار بچوں کو یہ شکایت لاحق ہے۔ متاثرہ بچے حرکت نہیں کر پارہے ہیں اور اُن کے جسم اس طرح اکڑگئے ہیں جیسے شدید سردی سے جم گئے ہوں ۔
میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق ہائپوتھرمیا سے متاثرہ بچوں میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے سردی سے جم جانے کی وجہ سے دانتوں سے زبان کو اس طرح کاٹا کہ خون رسنے لگا۔ جب ٹھنڈ بے پناہ ہو اور وسائل زندگی بالخصوص گرم کپڑے یا کمرے کو گرم رکھنے کی اشیاء نہ ہوں تو منجمد کرنے والی ٹھنڈ اپنا اثر تو دکھا کر رہے گی۔ غزہ کے لوگوں نے ٹھنڈ پہلے بھی دیکھی ہوگی مگر اس کے مقابلے کیلئے اُن کے پاس وسائل موجود رہے ہونگے۔ ٹھنڈ کوئی نئی موسمی یورش نہیں ہے۔ مگر اس بار غزہ میں جو ٹھنڈ پڑرہی ہے اُس میں وسائل حیات مفقود ہیں ۔ نہ تو گھر ہے نہ ہی گھر جیسا کوئی ڈھانچہ جس میں سرچھپایا اور موسمی اثرات سے محفوظ رہا جاسکتا ہو۔ نہ تو گرم کپڑے ہیں نہ ہی ہیٹر جیسی گرمی پیدا کرنے والا کوئی آلہ، کھلے آسمان کے نیچے رات میں سات ڈگری کی تاب پختہ عمر کے لوگ نہیں لاسکتے تو نومود یا شیر خوار بچے کیسے اس کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ میں ہائپوتھرمیا غضب ڈھا رہا ہے اور نصف درجن سے زیادہ کمسن اور معصوم بچے فوت ہوچکے ہیں ۔’’حسرت اُن غنچوں پہ ہے......‘‘ کے مصداق یہ کہنا غلط نہیں کہ یہ بچے شدید بمباری، تباہی و تاراجی اور بے سرو سامانی کے عالم میں غزہ میں تب پیدا ہوئے جب ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا اور شدید ٹھنڈ کا اس طرح شکار ہوئے کہ ان کی رگوں میں خون جم گیا۔
یہ بھی پڑھئے دس دن، پانچ دھمکیاں
زندگی بعض اوقات ناکردہ گناہی کی اتنی بڑی سزا دیتی ہے کہ اس سزا سے دوچار شخص کیسے مقابلہ کرسکتا ہے یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا۔اِس وقت غزہ ایسی جیل ہے جہاں سو فیصد وہ لوگ قید ہیں جو گناہ کو گناہ نہ سمجھنے والوں کی انسان دشمن کارروائیوں کا شکار ہیں ۔ اسرائیل نے انسانی بنیادوں پر ملنے والی امداد کے راستے بھی روک رکھے ہیں ۔ جب اشیائے خوردنی کے لالے پڑےہوں تو گرمی بخشنے والے کمبل اُن کے پاس کہاں سے آئینگے۔ سخت حیرت اس بات پر ہے کہ پوری دُنیا ہلاکتوں اور انسانی بے چارگی کا یہ تماشا دیکھ رہی ہے، روزانہ اس کے بارے میں سن رہی ہے مگر اقوام متحدہ جیسے ادارے مفلوج ہیں اور تمام ممالک مل کر بھی اسرائیل کو روکنے میں ناکام ہیں ۔ ابھی دو روز قبل ہی پوپ جان فرانسس نے غزہ کی صورت حال کو شرمناک اور تشویشناک قرار دیا مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کوئی ہے جو سن رہا ہے؟ کوئی ہے جو اسرائیل کو روک رہا ہے؟ کوئی ہے جس کے دل میں انسانیت کا درد ہے؟ ان سوالوں کے جواب سے آپ بخوبی واقف ہیں !