مارکڑ واڑی نامی مہاراشٹر کا گاؤں اِن دنوں شہ سرخیوں میں ہے۔اس کی وجہ اس گاؤں کا طریقۂ مزاحمت ہے۔ اس نے ای وی ایم کے خلاف مظاہرہ کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ احتجاج کا ایسا طریقہ وضع کیا جو مہاتما گاندھی کے طریقۂ احتجاج سے ملتا جلتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 04, 2024, 1:56 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
مارکڑ واڑی نامی مہاراشٹر کا گاؤں اِن دنوں شہ سرخیوں میں ہے۔اس کی وجہ اس گاؤں کا طریقۂ مزاحمت ہے۔ اس نے ای وی ایم کے خلاف مظاہرہ کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ احتجاج کا ایسا طریقہ وضع کیا جو مہاتما گاندھی کے طریقۂ احتجاج سے ملتا جلتا ہے۔
مارکڑ واڑی نامی مہاراشٹر کا گاؤں اِن دنوں شہ سرخیوں میں ہے۔اس کی وجہ اس گاؤں کا طریقۂ مزاحمت ہے۔ اس نے ای وی ایم کے خلاف مظاہرہ کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ احتجاج کا ایسا طریقہ وضع کیا جو مہاتما گاندھی کے طریقۂ احتجاج سے ملتا جلتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا خمیر گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون سے اُٹھا ہے۔ یہ گاؤں مہاراشٹر اسمبلی کے جس حلقے میں واقع ہے، وہاں سے گاؤں والوں کا پسندیدہ اُمیدوار ہی جیتا ہے اس کے باوجود چونکہ گاؤں میں اس اُمیدوار کو کم ووٹ ملے جبکہ قیاس غالب ہے کہ پورے گاؤں نے اسی کو ووٹ دیا ہے اسلئے گاؤں کے لوگوں کو ای وی ایم پر شبہ ہوا۔ اسی شبہ کا نتیجہ تھا کہ حکام سے رابطہ کرکے روایتی طریقے سے یعنی بیلٹ پیپر پر ووٹنگ کرانے کی مانگ کی گئی جسے حکام نے مسترد کردیا، اسی لئے طے کیا گیا کہ نجی طور پر بیلٹ پیپر پر الیکشن کروا کے دیکھیں کہ آیا نتیجہ وہی رہتا ہے یا مشین اور پیپر میں کوئی فرق آتا ہے۔
بلاشبہ یہ متوازی الیکشن کا معاملہ تھا جس کی اجازت انتظامیہ نہیں دے سکتا تھا اس لئے اسے مسترد کردیا گیا مگر جب گاؤں والوں نے اپنے طور پر، اپنے صرفے سے اور اپنے افراد پر مشتمل انتخابی عملہ تشکیل دے دیا تو حکام سکتے میں آگئے۔ اُنہوں نے پہلے تو ذمہ داران کو متنبہ کیا کہ اگر اس کی وجہ سے ’’شانتی بھنگ‘‘ ہوئی تو اُنہی کو قصوروار ٹھہرایا جائیگا مگر جب منصوبے کو رو بہ عمل لانے کا ان کا ارادہ نہیں بدلا تو گاؤں میں مبینہ طور پر کرفیو لگا دیا گیا اور گاؤں والوں کو الیکشن سے روک دیا گیا۔
بظاہر گاؤں ناکام ہوگیا مگر اس اعتبار سے جیت اُسی کی ہوئی کہ اس نے چند باتیں بآسانی واضح کر دیں ، مثلاً: (۱) عوام کا ای وی ایم پر بھروسہ نہیں رہ گیا ہے (۲) عوام ای وی ایم کا متبادل چاہتے ہیں ۔ اگر کوئی راستہ نہیں نکالا گیا تو بیلٹ پیپر کے ذریعہ الیکشن کرانے کی پرانی روایت پر لوَٹنا ناگزیر ہوگا تاکہ شک و شبہ کی گنجائش ہی نہ رہے (۳) ای وی ایم کے بارے میں الیکشن کمیشن کا یقین جتنا مستحکم ہے اس سے زیادہ مستحکم عوام کا شبہ ہے کہ ای وی ایم کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ ہورہی ہے جس کے سبب منظر عام پر آنے والے نتائج بار بار چونکا رہے ہیں ، اور (۴) ای وی ایم کے بارے میں الیکشن کمیشن کے دعوے اپنی جگہ مگر اب وقت آرہا ہے کہ کمیشن، اپنے دعوؤں کو ثابت کرکے دکھائے اور ملک کے عوام کو اعتماد دلائے کہ ای وی ایم میں کوئی کھوٹ نہیں ہے یا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جارہی ہے یا اس کی پیشگی پروگرامنگ نہیں ہورہی ہے یا جن افسران کو اس کے تکنیکی اُمور کی ذمہ داری دی جاتی ہے وہ سب سو فیصد لائق اعتبار ہیں اور اپنے فرائض کو مکمل دیانتداری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں ۔
یہ بھی پڑھئے : بھوپال گیس سانحہ: کیا ہم نے کچھ سیکھا؟
ہمارے خیال میں الیکشن کمیشن کو دعوؤں سے بالاتر ہوکر اپنی معتبریت کو بحال کرنے پر توجہ دینا چاہئے جو بامعنی جمہوریت کا جزوِ لاینفک ہے۔ مارکڑ واڑی کے لوگوں نے انتخابی ادارہ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے، اس کی جانب سے بے اعتباری کا اظہار کیا ہے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر انتخابی معاملات کو شفاف نہیں بنایا گیا تو وہ خود میدان ِ عمل میں آسکتے ہیں ۔ مارکڑ واڑی کے لوگوں کو روکا نہ گیا ہوتا تو کل بیلٹ پیپر پر الیکشن ہوکر آج اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہوتا۔ حکام نے بھلے ہی اس تجربے سے گاؤں والو ں کو روک دیا ہو مگر پورے ملک میں ای وی ایم کے خلاف ماحول سازی میں اس منصوبے نے بڑا کام کیا ہے ۔