• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

حسرت اُن غنچوں پہ ہے!

Updated: September 20, 2024, 1:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

بے روزگاری کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ بلاشبہ معیشت سے بہت سے مسائل وابستہ رہتے ہیں جیسے کبھی ایکسپورٹ کم ہوگیا اور کبھی ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہندوستانی روپے کی قدر کم ہو گئی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 بے روزگاری کم ہونے کا نام نہیں  لے رہی ہے۔ بلاشبہ معیشت سے بہت سے مسائل وابستہ رہتے ہیں  جیسے کبھی ایکسپورٹ کم ہوگیا اور کبھی ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہندوستانی روپے کی قدر کم ہو گئی۔ کبھی بیرونی ملکوں  سے ہونے والی درآمدات ناگفتہ بہ مسائل سے دوچار ہوئی اور کبھی تجارتی خسارہ بڑھ گیا۔ کبھی ملک کے کسی ایک یا زیادہ تجارتی و کاروباری شعبوں  (مثلاً مینوفیکچرنگ) کی کارکردگی متاثر ہوئی اور کبھی قومی بازار میں  اشیاء کی مانگ کم ہوگئی۔ ایسے مسائل سے ملک کے عوام براہ راست متاثر نہیں  ہوتے مگر مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری ایسا مسئلہ ہے جس سے افراد ہی نہیں  گھر کا گھر اور ان گھروں  کی مستقبل کی منصوبہ بندی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ اِنڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کا کہنا ہے کہ جون ۲۴ء میں  بے روزگاری کی شرح ۹ء۲؍ فیصد تھی۔ یہ بہت زیادہ بلکہ ناقابل برداشت شرح ہے۔ ہوسکتا ہے اس سے تھوڑی بہت زیادہ ہو یا تھوڑی بہت کم۔ اس میں  شہری بے روزگاری ۸ء۶؍ فیصد اور دیہی ۹ء۳؍ فیصد ہے۔
  کچھ ایسی ہی باتیں  انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن ڈیولپمنٹ کے اشتراک سے جاری کی گئی بین الاقوامی تنظیم ِ محنت (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کی رپورٹ میں  کہی گئی تھیں ۔ اس رپورٹ کے بعض چشم کشا انکشافات میں  بتایا گیا تھاکہ جن ملکوں  میں  روزگار کی خواہشمند خواتین کی بڑی تعداد روزگار سے محروم ہے اُن میں  ہندوستان بھی شامل ہے۔ اسی رپورٹ میں  یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ہندوستان کے نوجوانوں  میں  انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن کی صلاحیت اس حد تک بھی نہیں  ہے کہ وہ کسی دستاویز کو منسلک (اَٹیچ) کرکے ای میل روانہ کرسکیں ۔ ایسے نوجوانوں  کی تعداد ۷۵؍ فیصد بتائی گئی تھی۔ رپورٹ پڑھتے ہوئے شبہ ہوا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ مگر اسے مسترد کرنے کی کوئی ٹھوس بنیاد نہ ہونے کے باوجود شبہ کرنا بے سود معلوم ہوتا ہے۔ اس سے پہلے بہتیری کمپنیاں پیشہ جاتی تعلیمی اداروں  کے فارغین کے بارے میں  کہہ چکی ہیں  کہ اُن کی استعداد مطلوبہ استعداد سے کم ہوتی ہے اس لئے اُنہیں  یا تو ملازمت نہیں  دی جاتی یا پھر ملازمت دینے سے پہلے ٹریننگ ناگزیر ہوتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: آتشی: اچھا انتخاب

 لیکن، فی الحال مسئلہ صلاحیت اور ہنرمندی کا نہیں  ہے، روزگار کے مواقع کا ہے اور یہ مسئلہ بحران بن چکا ہے۔ مواقع سے ہماری مراد تعلیم یافتہ نوجوانوں  کو کسی بھی طرح کے روزگار کی دستیابی سے ہے اور مسئلہ یہی ہے کہ اُنہیں  کام ہی نہیں  مل رہا ہے خواہ وہ ادنیٰ درجے ہی کا کیوں  نہ ہو جس میں  بہت کم اُجرت ملتی ہے۔ ہماری تشویش کا باعث آئی ایل او اَور انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن ڈیولپمنٹ کا یہ کہنا ہے کہ روزگار سے محروم لوگوں  میں  ۸۳؍ فیصد تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ۔ ’’حسرت اِن غنچوں  پہ ہے‘‘ جن کے والدین نے اُنہیں  اعلیٰ تعلیم دلوانے پر لاکھوں  اور بعض نے کروڑوں  روپے خرچ کئے، ان نوجوانوں  نے محنت سے پڑھائی لکھائی کی اور اعلیٰ ملازمت کا خواب دیکھا مگر پاس آؤٹ ہونے کے بعد اُن کے سامنے اندھیرا ہے جو مسلسل ہے۔ جاب مارکیٹ میں  داخل ہونے کا ان کا وقت گزرا جارہا ہے اور ملازمتیں  عنقا ہیں ۔ سرکاری بھرتیوں  کا حال اس تک بگڑا ہوا ہے کہ اسامیاں  نکالی نہیں  جاتیں ، امتحانات نہیں  ہوتے، بڑے بڑے گھپلے ہوجاتے ہیں  اور پھر سب کچھ معلق ہوجاتا ہے۔ افسوس کہ ہم اپنی نئی نسل کے ساتھ بڑی ناانصافی کررہے ہیں  ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK