• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ریلوے حادثات کب تک؟

Updated: October 16, 2024, 1:44 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

گزشتہ سال بالاسور کے ٹرین حادثے میں کم و بیش ۳۰۰؍ مسافروں کی جانیں گئی تھیں ۔ مرکزی حکومت نے اس کا فوری نوٹس لیا اور وزیر ریلوے اشونی ویشنو ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم مودی بذات خود جائے حادثہ کا جائزہ لینےکیلئے پہنچے تھے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

  گزشتہ سال بالاسور کے ٹرین حادثے میں  کم و بیش ۳۰۰؍ مسافروں  کی جانیں  گئی تھیں ۔ مرکزی حکومت نے اس کا فوری نوٹس لیا اور وزیر ریلوے اشونی ویشنو ہی نہیں  بلکہ وزیر اعظم مودی بذات خود جائے حادثہ کا جائزہ لینےکیلئے پہنچے تھے۔ اس کی وجہ سے یہ اُمید بندھی تھی کہ اب ریلویز کی زیادہ فکر کی جائیگی، ٹرینوں  اور مسافروں  کی محفوظ آمد و رفت پر زیادہ دھیان دیا جائے گا اور اس راہ کی جتنی بھی رُکاوٹیں  اور مشکلات ہیں  اُنہیں  ترجییحی بنیاد پر حل کیا جائیگا مگر تب سے لے کر اب تک کے متعدد حادثات کچھ اور ہی کہانی بیان کررہے ہیں ۔ حالیہ واقعہ چنئی ( باگمتی ایکسپریس ) کا ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالاسور کے حادثے سے ملتا جلتا ہے جس میں  چلتی ٹرین نے ایک ایسی ٹرین کو ضرب لگائی جو اپنی جگہ پر کھڑی ہوئی تھی۔ اس سے سگنل نظام پر بڑا سوالیہ نشان لگتا ہے۔ 
 حیران کن بات یہ ہے کہ بڑھتے حادثات کے باوجود ریلوے کی وزارت اور حکام کی جانب سے کوئی ٹھوس بات اور حفاظتی اقدامات کے تعلق سے کوئی بڑی یقین دہانی نہیں  ہورہی ہے۔ موجودہ اہل اقتدار کا طرز عمل یہ ہے کہ جب بھی کوئی شکایت زور پکڑتی ہے وہ پرانے واقعات کو جواز کے طور پر پیش کرنے لگتے ہیں  کہ دیکھئے یہ پہلے بھی ہوتا تھا، یا، پہلے تو اتنا ہوتا تھا اب اتنا نہیں  ہوتا، یا، سابقہ حکومتوں  کے دَور میں  ایسا ہوا تھا اس لئے اب ایسا ہورہا ہے وغیرہ۔ ہر بات کیلئے ماضی کی الماریوں  کے پٹ کھولنا اور کسی فائل سے کوئی ڈیٹا نکال کر جواز پیش کردینا اس لئے بے معنی ہے کہ جن سابقہ حکومتوں  میں  کوئی ناخو شگوار بات ہوئی تھی اُن کو عوام سبق سکھا کر اقتدار سے بے دخل کرچکے ہیں  اور اب وہ اُن سے جواب طلب کرنا چاہتے ہیں  جو اِس وقت اقتدار میں  ہیں ۔ ایک رجحان یہ بھی ہے کہ اگر اہل اقتدار جواز پیش نہیں  کرتے ہیں  تو یہ ’’کارِ خیر‘‘ میڈیا انجام دیتا ہے، مثال کے طور پر، جون میں  کنچن جنگا ایکسپریس حادثے کے بعد ایسی خبریں  منظر عام پر آئیں  جن میں  سابقہ دورِ اقتدار (یوپی اے) اور موجودہ دورِ اقتدار (این ڈی اے) میں  ہونے والے حادثوں  کی تفصیل پیش کرتےہوئے یہ سمجھایا گیا کہ آخر الذکر میں  حادثات کم ہوئے ہیں ۔ اس سلسلے میں  بتایا گیا کہ ۲۰۰۴ سے ۲۰۱۴ء تک ۱۷۱۱؍ حادثات ہوئے جن میں  ۲۴۵۳؍ اموات ہوئی تھیں  مگر ۲۰۱۴ء سے ۲۰۲۳ء کے درمیان صرف ۶۳۸؍ حادثات ہوئے جن میں  ۷۸۱؍ اموات ہوئیں ۔ جب بھی اس قسم کا موازنہ کیا جاتا ہے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ اپنی جوابدہی سے بچنے کی کوشش ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:مہاراشٹر کا نظم ونسق رام بھروسے؟

 جوابدہی سے بچنا ہی ہے تو حکومت کو چاہئے کہ کوئی ایسی بات نہ ہونے دے جس پر جواب طلب کیا جائے۔ مسافروں  کی حفاظت کے پختہ انتظامات کے ذریعہ ریلوے حادثات کو روکنے کی سبیل نکال لی جائے تو جوابدہی کے مطالبہ کا کم سے کم سامنا ہوگا مگر وزارت ریل یہ بھی نہیں  کررہی ہے۔شاید اس لئے کہ اس نے حفاظتی آلہ ’’کو َچ‘‘ کے تعلق سے جتنے وعدے کئے تھے سب پورے نہیں  ہوئے۔ ضروری تقرریوں  کی طرف بھی اس نے توجہ نہیں  دی۔ گزشتہ سال خود وزیر ِ ریلوے نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ۱۸؍ زون میں  ۳؍ لاکھ ۱۲؍ ہزار اسامیاں  خالی ہیں ۔ حکومت کی توجہ ہے تو آئے دن کسی نئی اور ہائی فائی ٹرین کے جاری کئے جانے کے اعلان اور اس کو ہری جھنڈی دکھانے کے اہتمام پر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹرینیں  بڑھ رہی ہیں ، کرایہ بڑھ رہا ہے مگر سرکھشا کم ہورہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK