سابق رُکن اسمبلی، سابق ریاستی وزیر اور این سی پی (اجیت) کے سینئر لیڈر با با صدیقی کا سر عام گولیوں سے بھون دیا جانا ایسا سانحہ ہے جس نے مہاراشٹر کے نظم و نسق پر گہرا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ریاست گزشتہ کئی ماہ سے پُرتشدد بلکہ نہایت سنگین قسم کے واقعات کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔
سابق رُکن اسمبلی، سابق ریاستی وزیر اور این سی پی (اجیت) کے سینئر لیڈر با با صدیقی کا سر عام گولیوں سے بھون دیا جانا ایسا سانحہ ہے جس نے مہاراشٹر کے نظم و نسق پر گہرا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ریاست گزشتہ کئی ماہ سے پُرتشدد بلکہ نہایت سنگین قسم کے واقعات کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔
بدلاپور سانحہ کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے جس پراہل مہاراشٹر ہی نہیں دیگر ریاستوں کے عوام نے بھی اپنا سر شرم سے جھکا ہوا محسوس کیا۔ ضروری تھا کہ گرفتار کئے گئے ملزم کو عدالتی عمل سے گزار کر سخت سزا دلوائی جاتی مگر قلیل مدت میں اس کا انکاؤنٹر ہوگیا اور اُن بچیوں کو انصاف نہیں مل سکا اوراب شاید کبھی نہ مل سکے جن کا اسکول کے اوقات میں جنسی استحصال کیا گیا تھا۔ اسی کے آس پاس، پونے میں سابق کارپوریٹر وَن راج انڈیکر کو فائرنگ میں مار دیا گیا۔ اِدھر اُلہاس نگر میں بی جے پی کے رُکن اسمبلی گنپت گائیکواڑ نے شیو سینا سے وابستہ مہیش گائیکواڑ پر کہیں اور نہیں بلکہ پولیس اسٹیشن کے اندر فائرنگ کی۔ اس سے قبل ۲؍ افراد نے فلمسٹار سلمان خان کے مکان پر فائرنگ کی تھی۔ اِس کی تفتیش کے دوران جس گروہ کا نام سامنے آیا تھا، اُسی کا نام بابا صدیقی کے قتل میں بھی آرہا ہے ۔ اگر تب ہی اُس گروہ کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی کوشش کی گئی ہوتی تو کیا اُس کے لوگ بابا صدیقی کو نشانہ بناتے؟ چند روز قبل پونے کے بوپ دیو گھاٹ میں اجتماعی آبرو ریزی کے دردناک واقعے کی بابت اخبارات میں خبریں شائع ہوئی ہیں ۔ یہ تو محض چند بڑی سرخیاں ہیں ، ریاست کے اور بھی واقعات نظم و نسق کی ابتر صورت حال کی غمازی کرتے ہیں چنانچہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مہاراشٹرجیسی ریاست جس کی شہرت صنعتی اور معاشی اعتبار سے فعال اور سرگرم ریاست کی ہے، اِن دنوں دشوار حالات سے گزر رہی ہے اور ایسے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ کیا یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ ریاستی حکومت میں شامل پارٹیوں کو اپنی بقاء اور عنقریب ہونے والے انتخابات میں اپنی سبقت کی فکر ستا رہی ہے اور وہ ریاستی نظم و نسق سنبھالنے میں ناکام ہیں ؟
اس پس منظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے جس پر عوام کو غور کرنا چاہئے کہ کیا حکومتیں اس لئے بنتی ہیں کہ اپنی سیاست اور اپنے مفاد کی فکر کریں اور عوام کا مفاد بالائے طاق رکھ دیں ؟ پولیس کا کہنا ہے کہ اُسے بابا صدیقی کو ملنے والی دھمکیوں کا علم نہیں ہے، بابا نے ایسی کوئی شکایت نہیں کی تھی۔ اس بیان میں کتنا دم ہے یہ کہنا مشکل ہے مگر اس حقیقت سے عام آدمی بھی واقف ہے کہ محکمۂ پولیس کا ایک شعبہ سراغرسانی پر مامور ہوتا ہے جو اپنے نیٹ ورک کے ذریعہ پتہ لگاتا ہے کہ کہاں کیا ہورہا ہے یا ہوسکتا ہے؟ کیا اُسے بابا پر منڈلانے والے خطرہ کی بھنک نہیں لگی تھی؟
یہ بھی پڑھئے: ’’ہنگر‘‘ یا ستم گر؟
سیاست کے اپنے مسائل اور تقاضے ہوسکتے ہیں مگر اُن سے نمٹنے کیلئے عوام کے مسائل کا نظر انداز ہوجانا نہایت تکلیف دہ رجحان ہے۔ عوام کے ووٹ حاصل کرکے جو سیاسی پارٹیاں حکومت بناتی ہیں اُن کی حکومت عوام کیلئے ہوتی ہے نہ کہ اپنی سیاست کیلئے۔فلاحی اسکیمیں جاری کرنے اور عوامی سہولت کیلئے نت نئے پروجیکٹوں کا افتتاح کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کی جان، مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہوتا رہے ۔ جو تشدد ہورہا ہے مہاراشٹر کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔ ریاستی حکومت کو نظم و نسق کی فکر کرنی چاہئے، الیکشن تو ہوتا رہے گا ۔