ہریانہ میں بھوپندر سنگھ ہڈا اور کماری شیلجا کے درمیان جو ناچاقی اور کشیدگی بتائی جارہی ہے وہ کتنی شدید ہے اور کتنی نہیں ، اُن میں جو مفاہمت کروائی گئی ہے وہ کتنی پائیدار ہے اور کتنی ناپائیدار، اس سے ہریانہ کے اسمبلی انتخابات پر کتنا اثر پڑے گا اور کتنا نہیں ؟
ہریانہ میں بھوپندر سنگھ ہڈا اور کماری شیلجا کے درمیان جو ناچاقی اور کشیدگی بتائی جارہی ہے وہ کتنی شدید ہے اور کتنی نہیں ، اُن میں جو مفاہمت کروائی گئی ہے وہ کتنی پائیدار ہے اور کتنی ناپائیدار، اس سے ہریانہ کے اسمبلی انتخابات پر کتنا اثر پڑے گا اور کتنا نہیں ؟ یہ تمام ایسے سوالات ہیں جن کا بہت آسانی سے جواب دیا جاسکتا ہے مگر سوچ سمجھ کر، حقائق کی روشنی میں اور ذمہ داری کے ساتھ جواب دینا ہو تو یہی سوالات بہت مشکل ہوجائینگے۔ تب بآسانی جواب ممکن نہیں ۔ ہماری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ کچھ تو ناچاقی ہوگی مگر اسے غیر معمولی طور پر میڈیا نے نمایاں کیا جو نہیں چاہتا کہ کانگریس میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہے اور اس کے لیڈران یکسوئی کے ساتھ پارٹی کو بڑی جیت کی راہ پر گامزن کریں ۔
آپ جانتے ہیں ’’کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار، اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں ‘‘۔ دیگر باتوں کے علاوہ عموماً یہی بات نزاع کا سبب بنتی ہے چنانچہ ایک لیڈر کو اپنے حامیو ں کو متحد رکھنے کیلئے اپنی ہی صف کے دوسرے لیڈر کے خلاف محاذ کھولنا پڑتا ہے اور دوسرے لیڈر کو پہلے کے خلاف۔ یہ نہ ہو تو اپنے اپنے حامیوں کے مفادات پر پڑنے والی ضرب سے بھی معاملات بگڑتے ہیں مثلاً ہمیں اتنے ٹکٹ دیئے گئے جبکہ فلاں لیڈر کے حامیوں کو اتنے۔ مگر یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن سے من مٹاؤ ہو بھی جائے تو زیادہ دیر قائم نہیں رہتا بشرطیکہ لیڈران پارٹی کے سچے وفادار ہوں اور اپنی امیج، طاقت یا مفادات سے زیادہ پارٹی کے مفادات اور شبیہ کا خیال رکھتے ہوں ۔
یہ بھی پڑھئے: راہل گاندھی کا تازہ ویڈیو
ہڈا اور شیلجا کے درمیان جس تناتنی کی خبریں آرہی تھیں وہ کوئی بڑا مسئلہ اس لئے نہیں ہوسکتی کہ دونوں ہی لیڈران ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں ، ان میں خاندانی مراسم بھی ہیں ، انہوں نے برسوں ساتھ کام کیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہڈا، شیلجا کو اپنی چھوٹی بہن قرار دیتے آئے ہیں ۔ اسلئے اگر ان دونوں کے درمیان واقعی کوئی چپقلش تھی تو اب جو مفاہمت کرائی گئی ہے اُس کے دیر پا ہونے کے امکانات روشن ہیں ۔ کانگریس کے اعلیٰ لیڈران کو سوچنا ہوگا کہ دونوں لیڈران مل جل کر کام کرتے رہیں تاکہ پارٹی سرخرو ہو اور ہریانوی عوام کا کانگریس پر نئے سرے سے اعتماد بھاری جیت میں تبدیل ہو۔
کانگریس کے اعلیٰ لیڈران کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جن ریاستوں میں کانگریس کی پوزیشن مضبوط ہے، خواہ وہاں عنقریب الیکشن ہونے والے ہوں یا ابھی دور ہوں ، وہاں پہلی اور دوسری صف کے لیڈروں کے درمیان یگانگت ہو اور سب مل کر پارٹی کیلئے کام کریں ، جاہ طلبی کے جذبے کے ساتھ نہیں کہ بڑا عہدہ ملے گا اور ترقی ہوگی تو کام کرینگے ورنہ ’’دوسرا کوئی کام‘‘ کرنے لگیں گے۔ یہاں یاد دِلانا ضروری نہیں کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ میں زبردست رسہ کشی جاری تھی۔ ا س کا نتیجہ کیا نکلا؟ گہلوت کی جن عوامی اسکیموں کے سبب سمجھا جارہا تھا کہ الیکشن یکطرفہ ہوگا، وہاں بی جے پی جیت گئی۔ اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں مگر ان میں سے ایک سبب گہلوت اور پائلٹ کی خیمہ بندی تھا۔ اس لئے کانگریس (اور دیگر پارٹیوں کو بھی) اپنی صفوں کے انتشار پر پہلے نگاہ کرنی چاہئے کہ اگر اس کا تصفیہ نہیں کیا گیا تو میڈیا دھواں دیکھتے ہی آگ کی لپٹیں دکھانے لگتا ہے۔