سپریم کورٹ نے اُترپردیش کے مدرسوں کیلئے بڑی راحت کا فیصلہ دیا ہے۔ یہ اس قابل ہے کہ اس کی ستائش کی جائے۔ اس سے مدرسوں کے خلاف بے بنیاد الزامات اور بے تکی باتوں پر لگام لگنی چاہئے۔
EPAPER
Updated: November 07, 2024, 12:52 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
سپریم کورٹ نے اُترپردیش کے مدرسوں کیلئے بڑی راحت کا فیصلہ دیا ہے۔ یہ اس قابل ہے کہ اس کی ستائش کی جائے۔ اس سے مدرسوں کے خلاف بے بنیاد الزامات اور بے تکی باتوں پر لگام لگنی چاہئے۔
سپریم کورٹ نے اُترپردیش کے مدرسوں کیلئے بڑی راحت کا فیصلہ دیا ہے۔ یہ اس قابل ہے کہ اس کی ستائش کی جائے۔ اس سے مدرسوں کے خلاف بے بنیاد الزامات اور بے تکی باتوں پر لگام لگنی چاہئے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یوپی حکومت کے اسی قانون کیخلاف داخل کی گئی عرضی پر الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں بالکل ’’ہاں ‘‘ اور ’’نہیں ‘‘ کا فرق ہے۔ ایک ہی عرضی پر، ایک ہی قانون کے متعلق دیئے گئے دو فیصلے مختلف ہوسکتے ہیں مگر متضاد کیسے ہوسکتے ہیں اس پر غور کیا جانا چاہئے۔ کیا ہمارے ملک میں قانون کی تشریح کا مسئلہ ہے؟ کیاسپریم کورٹ کے مطمح نظر میں اور بعض اوقات دیگر عدالتوں کے مطمح نظر میں فرق ہے؟ ہمارے خیال میں خودسپریم کورٹ اس معاملے پر توجہ دے اور جس مقدمے میں اس کا نظریہ دیگر عدالت یا عدالتوں کے متضاد ہو تو اسے دیگر عدالتوں سے پوچھنا چاہئے کہ قانون کے تجزیہ یا تشریح میں اُن کا نظریہ اتنا بعید کیوں ہے۔ اگر ایسا ہوا تو دیگر عدالتوں یعنی سیشن اور ہائی کورٹ ہی کی سطح پر مقدمہ کی فائل بند ہوسکتی ہے۔ تب اتنی بڑی تعداد میں مقدمات سپریم کورٹ نہیں پہنچیں گے ۔
ملک میں مدارس کا نظام برسہا برس سے قائم ہے۔ یہاں کے فارغین ملک و ملت کا بڑا اثاثہ ہیں جو مسلمانوں کے مذہبی اُمور کی انجام دہی میں معاون ہوتے ہیں جبکہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے آراستہ مدارس کے فارغین میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو ملک کے ساتھ ملت کی اور ملت کے ساتھ ملک کی خدمت میں سرگرم ہیں ۔ یہ سب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس کے باوجود آئے دن مدارس پر تہمت باندھی جاتی ہے، الزام لگایا جاتا ہے اور من گھڑت باتیں کہی جاتی ہیں ۔ سپریم کورٹ کے زیر بحث فیصلے کے بعد ایسی تمام موشگافیوں پر روک لگ جانی چاہئے۔ مدارس کے فارغ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کیلئے منتخب ہوئے اور اُنہوں نے ملکی اُمور میں آئین کی بالادستی کو قبول کیا، اسی طرح کئی دیگر شعبوں مثلاً آئی ٹی، ٹیکنالوجی، بزنس وغیرہ میں بھی مدارس کے فارغین کی موجودگی ثابت کرتی ہے کہ ان کی صلاحیت و استعداد پر شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے مدارس کی خدمات بھی شبہ کے دائرہ سے باہر ہیں ۔ یہ متوازی نظام نہیں ، معاون نظام ہے ورنہ کون جانتا ہے کہ عصری تعلیمی اداروں تک نہ پہنچ پانے والے نہ جانے کتنے طلبہ سلسلۂ تعلیم منقطع کردیں ! یہ مدارس ہی ہیں جو ایسے طلبہ کو اپنے دامن شفقت میں سمیٹ کر اُن کی زندگی کو مقصدیت عطا کرتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھ’ئے: فیصلے کی گھڑی، ہیرس یا ٹرمپ؟
سپریم کورٹ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ مدارس غیر آئینی نہیں ہیں ، ان کا وجود سیکولرازم کے منافی نہیں ہے اور ان سے رائٹ ٹو ایجوکیشن کی نفی نہیں ہوتی ہے۔ چیف جسٹس چندر چڈ کی قیادت میں سپریم کورٹ کی بنچ کا یہ فیصلہ تاریخی ہے جس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔ اس سے ملک میں مدرسوں کے کاز کو تقویت پہنچے گی بھلے ہی وہ زبانیں بند نہ ہوں جو کسی خاص مقصد اور ایجنڈے کے تحت کھلتی ہیں ۔ یہ فیصلہ مدارس پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کے خلاف قابل ذکر اور بڑی ڈھال ہے۔ اِس سے راحت پاکر مدارس کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کتنی معیاری تعلیم دے رہے ہیں اور طلبہ کو کتنی سہولتیں فراہم کررہے ہیں ۔ مسلم قوم کو بھی مدارس کے تحفظ اور ترقی کیلئے جو بھی مدد ممکن ہوسکتی ہے، کرنی چاہئے۔