امریکہ میں آج پولنگ ہے۔ چونکہ ہندوستان اور امریکہ میں وقت کا کم و بیش دس گھنٹے کا فرق ہے، اس لئے پولنگ کے اوقات میں بھی فرق ہے۔ وہاں کے حساب سے صبح ۷؍ بجے پولنگ شروع ہوگی۔ تب ہمارے یہاں شام کے ساڑھے چار بج رہے ہونگے۔
EPAPER
Updated: November 05, 2024, 1:43 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
امریکہ میں آج پولنگ ہے۔ چونکہ ہندوستان اور امریکہ میں وقت کا کم و بیش دس گھنٹے کا فرق ہے، اس لئے پولنگ کے اوقات میں بھی فرق ہے۔ وہاں کے حساب سے صبح ۷؍ بجے پولنگ شروع ہوگی۔ تب ہمارے یہاں شام کے ساڑھے چار بج رہے ہونگے۔
امریکہ میں آج پولنگ ہے۔ چونکہ ہندوستان اور امریکہ میں وقت کا کم و بیش دس گھنٹے کا فرق ہے، اس لئے پولنگ کے اوقات میں بھی فرق ہے۔ وہاں کے حساب سے صبح ۷؍ بجے پولنگ شروع ہوگی۔ تب ہمارے یہاں شام کے ساڑھے چار بج رہے ہونگے۔ جو بھی ہو، ووٹ تو اُتنے ہی پڑیں گے جتنے پڑنے ہیں اور جس کے حصے میں جتنے آنے ہیں اُتنے ہی آئینگے، وقت کے فرق سے اس میں کوئی فرق نہیں آنے والا۔ رہی بات الیکشن میں پیش گوئی کی، کہ کون جیت رہا ہے، یہ خود گمراہ ہونے اور دوسروں کو گمراہ کرنے جیسا ہے اس لئے ہم چاہیں بھی تو پیش گوئی نہیں کرینگے البتہ اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ سے ملنے والی رپورٹوں کا تجزیہ کرنے پر اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ اس الیکشن میں کانٹے کی ٹکر ہے۔ اس کی اہم وجہ جو ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ پیش رو صدر جو بائیڈن کا دورِ حکومت ہے۔ اُن کی ڈھیلی ڈھالی قیادت کے سبب اُن کی پارٹی، جو کملا ہیرس کی بھی پارٹی ہے، اقتدار کا فائدہ اُٹھانے اور عوام پر اپنا اثرورسوخ مستحکم کرنے میں ناکام رہی بالخصوص غزہ جنگ جس کی بابت امریکی رائے دہندگان سمجھتے ہیں کہ ڈیموکریٹ صدر نے اس میں فیصلہ کن کردار نہیں نبھایا۔ وہ ڈھلمل یقینی کا شکار رہے۔ اگر بائیڈن سن رسیدہ اور ذہنی طور پر ضعیف نہ ہوگئے ہوتے تو ممکن تھا کہ صورتحال دوسری ہوتی۔ معاشی اُمور پر بھی رائے دہندگان کی کم و بیش نصف تعداد یہ سمجھتی ہے کہ کملا ہیرس اُتنی مؤثر نہیں ہوسکتیں جتنے ٹرمپ ہوں گے۔ دورِ حاضر میں عوام کا ایک طبقہ دوٹوک فیصلے چاہتا ہے۔ وہ نظریاتی ترجیحات کو اہمیت نہیں دیتا اسی لئے جمہوریت کو جتنی بڑی نعمت سمجھنا چاہئے، نہیں سمجھتا۔ اس طبقہ میں مفاد پرستی بھی اس حد تک ہے کہ اگر کوئی لیڈر کہتا ہے کہ تارکین وطن کی آمد روک دی جائیگی تو وہ طبقہ خوش ہوتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ تارکین وطن اگر ملازمت حاصل کرتے ہیں تو اپنی صلاحیتوں سے اُس ملک کو فیضیاب بھی کرتے ہیں جس میں وہ اپنا مقدر آزماتے ہیں ۔ اسی طبقہ کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ٹرمپ دیوار اُٹھانے کا وعدہ کرتے ہیں ، درآمدات اور برآمدات سے متعلق بھی اُن کے نظریات جارحانہ ہیں جو اُن کی صدارت کے پہلے دور میں اظہر من الشمس تھے، امریکہ فرسٹ کا نعرہ اُنہو ں نے ہی لگایا تھا۔منیسوٹا کے گورنر ٹم والز کے الفاظ میں ’’ڈونالڈ ٹرمپ کے عزائم ظاہر ہیں کہ وہ امریکی افواج کا مکمل کنٹرول چاہتے ہیں تاکہ سیاسی دشمنوں سے نمٹ سکیں ، محکمۂ انصاف کا مکمل کنٹرول چاہتے ہیں تاکہ مخالفین کو سزا دے سکیں اور میڈیا کا مکمل کنٹرول چاہتے ہیں تاکہ یہ طے کرسکیں کہ عوام کو کیا بتانا چاہئے۔‘‘ ٹرمپ ہی کے دور کے چیف آف اسٹاف (فوجی سربراہ) جو اَب سابق ہوچکے ہیں ، کا کہنا ہے کہ ’’ٹرمپ آئین کا کچھ علم نہیں رکھتے، قانون کا احترام نہیں کرتے، کوئی سرخ لکیر دیکھتے ہیں تو اسے پھلانگنے میں تردد نہیں کرتے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: مفت غذا یا مناسب کام؟
ٹرمپ نہ تو امریکہ کیلئے نئے ہیں نہ ہی دُنیا کیلئے۔ آج امریکہ فیصلہ کرے گا کہ اُسے ایک حواس باختہ صدر کی ضرورت ہے یا ایک سلجھے سنبھلے ہوئے، سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے والے اور متوازن شخصیت کے مالک کو صدر منتخب کرنا چاہئے خاص طور پر ایسی صورت میں جب وہ اُمیدوار ایک خاتون ہو۔ اگر امریکہ نے دانشمندانہ فیصلہ کیا تو امریکہ کو پہلی خاتون صدر مل سکے گی ورنہ دوسری بار ایک لا اُبالی صدر۔