غزہ کے خلاف اسرائیل کی مسلط کردہ ہلاکت خیز اور تباہ کن جنگ گزشتہ تیرہ ساڑھے تیرہ مہینوں سے جاری ہے۔
EPAPER
Updated: November 19, 2024, 1:03 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
غزہ کے خلاف اسرائیل کی مسلط کردہ ہلاکت خیز اور تباہ کن جنگ گزشتہ تیرہ ساڑھے تیرہ مہینوں سے جاری ہے۔
غزہ کے خلاف اسرائیل کی مسلط کردہ ہلاکت خیز اور تباہ کن جنگ گزشتہ تیرہ ساڑھے تیرہ مہینوں سے جاری ہے۔ ان تیرہ مہینوں کو تیرہ سال بھی شمار کیا جاسکتا ہے کیونکہ غزہ میں ہونے والی ہلاکت اور تباہی کو شمار کرنا ہی مشکل ہے۔ شمار کنندگان دن رات محنت کریں تب بھی جانوں، مکانوں اور دکانوں ہی کو گن سکتے ہیں، اُن خوابوں، آرزوؤں، تمناؤں، منصوبوں، امنگوں، رشتوں اور جذبوں کو شمار نہیں کرسکتے جن کی وجہ سے اسرائیلی ظلم و جبر کے باوجود غزہ میں زندگی جیسی زندگی تھی، لوگ آپس میں ملتے جلتے تھے، ہنستے بولتے تھے اور اسرائیل کی پیدا کردہ ہزار دشواریوں کے باوجود اپنے جذبۂ مزاحمت کو نئی آب و تاب عطا کرتے تھے۔
ماضی میں ہم یہ لکھ چکے ہیں کہ حکومت ِ اسرائیل بزعم خود یہ سمجھ سکتی ہے کہ اس نے ۴۳؍ ہزار سے زیادہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، ہزاروں مکانوں کو زمیں بوس کردیا، کئی اسپتالوں اور اسکولوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا وغیرہ، مگر وہ یہ کہنے کی ہمت نہیں کرسکتی کہ اس کی جارحیت نے فلسطینی مزاحمت کو توڑ دیا۔ جی نہیں۔ حماس کے کئی بڑے لیڈر فوت ہوگئے مگر مزاحمت اور آزادی کی تڑپ جوں کی توں ہے۔ یہ صورت حال اسرائیل کی شکست اور ناکامی کی دلیل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: الیکشن کی گوپال کلا
یہی ایک محاذ نہیں ہے جس پر اسرائیل نیچا دیکھنے کیلئے مجبور ہے۔ اور بھی کئی محاذ ہیں۔ مثال کے طور پر یہ پہلا موقع ہے جب پوری دُنیا میں فلسطین کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ امریکی صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹ اُمیدوار (کملا ہیرس) کے ہارنے کی پانچ بڑی وجوہات میں سے ایک، بائیڈن انتظامیہ کا غزہ کی جنگ نہ رُکوا پانا ہے۔ اسرائیل کی تب بھی ہزیمت ہوئی جب امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں حکومت ِ اسرائیل کے ذریعہ ہونے والی خونریزی اور امریکی پشت پناہی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ ابھی دو روز قبل بزرگ اسپینی سیاستداں اور یورپی کمیشن کے نائب صدر جوزف بوریل نے یورپی یونین کے ارباب اقتدار سے بہ اصرار کہاکہ اُنہیں غزہ کی جنگ رُکوانے کی کسی نئی حکمت عملی پر غور کرنا ہوگا کیونکہ اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی اب تک کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ ایسی جتنی بھی آوازیں اُٹھی ہیں اُن کے دو ہی اسباب ہوسکتے ہیں۔ ایک تو اُن کا اپنا دفاع کہ جنگ جاری رہی اور فلسطینی اسی طرح شہید ہوتے رہے تو انسانی حقوق پر کوئی اُن سے کچھ سننا نہیں چاہے گا، دوسرا یہ کہ حکومت ِاسرائیل جو کچھ بھی کررہی ہے اُسے اسرائیلی عوام کی تائید حاصل نہیں ہے اور جس طرح آج وہ نیتن یاہو کی مخالفت کررہے ہیں، کل دیگر ملکوں، قوموں، فورموں اور تنظیموں کی بھی مخالفت کرسکتے ہیں۔
اتنے سارے محاذوں پر ناکامی کے باوجود اگر اسرائیل ہٹ دھرمی پر قائم ہے تو محض اس لئے کہ وہ غزہ کی آبادی کو کسی گوشے میں سمیٹ کر غزہ کی زمین ہتھیا لے مگر وہ اس سازش میں کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ اسرائیلی فوج اپنے سیاسی آقاؤں کے حکم کی تعمیل سے تھک چکی ہے۔اس کے بہت سے سپاہی جنگ میں کام آچکے ہیں اور فوجیوں کی قلت مسئلہ بن رہی ہے۔ ایسی رپورٹیں منظر عام پر آئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج بیرونی ملکوں کے شہریوں کو فوج میں شمولیت کی دعوت دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے جنہیں ملازمت کے ساتھ ساتھ شہریت بھی دی جائیگی۔ مگر کیا ایسے اقدامات سے نیتن یاہو کی ناؤ غرقابیسے بچ جائیگی؟