• Sat, 05 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسرائیلی اشتعال انگیزی اور ایرانی ردعمل

Updated: October 05, 2024, 2:46 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ایسا لگتا ہے کہ ایران، جو کل تک اسرائیل سے براہ راست تصادم سے گریز کررہا تھا، اب اُسے سبق سکھانے کیلئے کمربستہ ہے۔اس سال کے اوائل میں دمشق کی ایک عمارت پر اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے اسرائیل پر جو حملہ کیا تھا وہ بہت محدود یعنی علامتی تھا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ایسا لگتا ہے کہ ایران، جو کل تک اسرائیل سے براہ راست تصادم سے گریز کررہا تھا، اب اُسے سبق سکھانے کیلئے کمربستہ ہے۔اس سال کے اوائل میں  دمشق کی ایک عمارت پر اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے اسرائیل پر جو حملہ کیا تھا وہ بہت محدود یعنی علامتی تھا۔ گزشتہ ماہ بھی ایران نے ایسے ہی حملے کے ذریعہ اسرائیل کو متنبہ کرنے کی کوشش کی جو اس لئے بے سود رہی کہ نیتن یاہو کی حکومت عقل کے ناخن لینے کو تیار ہی نہیں  ہے۔ اس حکومت نے غزہ میں  قتل عام جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ پہلے مغربی کنارے میں  کارروائیاں  شروع کیں  پھر اپنا رُخ لبنان کی جانب کیا۔ لبنان میں  پیجر اور واکی ٹاکی حملے ناقابل برداشت تھے مگر ایران نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اس دوران اسرائیلی حملوں  میں  حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ، حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ، حزب اللہ کے سینئر کمانڈر فواد شکر اور کئی دیگر افسران جاں  بحق ہوئے۔ اس سے ظاہر تھا کہ اسرائیل ایک طرف قتل عام اور انفراسٹرکچر کی تباہی چاہتا ہے تو دوسری طرف فلسطین، ایران، لبنان، شام، یمن اور دیگر ملکوں  میں  موجود مزاحمتی تحریک کے اعلیٰ لیڈروں کو راستے سے ہٹانا بھی اس کے پیش نظر ہے۔ یہ وہ لیڈران تھے جنہیں  وہ اپنے وجود کیلئے خطرہ سمجھتا تھا۔ ان کی جان کے درپے ہوتے ہوئے تل ابیب کے ذہن میں  یہ بات نہیں  رہی کہ جس مزاحمت کو عوام کی حمایت حاصل ہو اُس کا کوئی لیڈر یا سربراہ فوت بھی ہوجائے تو مزاحمت نہیں  رُکتی۔ ایران اب تک براہ راست تصادم سے بچتے ہوئے فلسطین کی مدد کیلئے جو کچھ کرسکتا تھا، کررہا تھا مگر اسرائیل نے اُسے جنگ میں  کھینچنے کی اپنی بے تابی کے ذریعہ حالات کو بگاڑنے میں  اہم کردار ادا کیا۔ اب ایران مزید برداشت نہ کرنے کی پالیسی اختیار کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: جنگ کا بڑھتا دائرہ اور یاہو‘ کی فضیحت

 کل (جمعہ کو) ایران کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت آیت اللہ خامنہ ای کا نماز جمعہ کا خطبہ و امامت اپنے آپ میں  پیغام تھا مگر اس پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اُنہوں  نے چند وضاحتیں  بھی کیں  اور ایک بار پھر اسرائیل کو باز آجانے کا پیغام دیا  جس میں  للکار بھی تھی۔ خامنہ ای نے ان نازک حالات میں  تمام مسلم ملکوں  کو اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے افغانستان سے یمن اور ایران سے غزہ اور لبنان تک دفاعی لائن بنانے پر زور دیا اور کہا کہ ہر ملک کو جارحیت کے خلاف دفاع کا حق حاصل ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس اپیل پر عرب ملکوں  کا ردعمل کیا ہوگا مگر یہ طے ہے کہ کئی عرب ملکوں  کی اسرائیل سے نئی نئی دوستی کی راہ میں  پہلے تو غزہ پر مسلط کی گئی جنگ حائل ہوئی اور اب ایران۔ اسرائیل جنگ کے خطرہ سے دوستی کے قربت میں  بدلنے کی رفتار مدھم ہوجائیگی۔ ایران سپریم لیڈر نے اپنے ملک کی جنگی پالیسی کے تعلق سے چند اشارے بھی کئے جن سے محسوس ہوتا ہے کہ تہران ایک ذمہ دار ملک کی اپنی حیثیت کو بالائے طاق نہیں  رکھ رہا ہے بلکہ اسرائیلی اشتعال انگیزی کے باوجود عالمی قوانین کی پاسداری کو ضروری سمجھتا ہے۔ خامنہ ای نے یہ بھی کہا کہ ایران اسرائیل کو جواب دینے میں  تاخیر نہیں  کرے گا مگر جلد بازی کے مظاہرہ سے بھی گریز کریگا۔ یہ سنبھلا ہوا طریق کار ہے جس کے پیش نظر اُمید کی جاتی ہے کہ ایران ’’سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘ کی حکمت عملی کو اولیت دیگا تاکہ جنگ میں  شدت نہ پیدا ہو مگر اسرائیل کی شکست یقینی ہوجائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK