• Sat, 05 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جنگ کا بڑھتا دائرہ اور یاہو‘ کی فضیحت

Updated: October 04, 2024, 4:10 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اسرائیل غزہ، لبنان یا ایران پر حملہ کرے یا ایران اسرائیل کو نشانہ بنائے، جنگ جنگ ہے جو سوائے تباہی کے اور کچھ نہیںجانتی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اسرائیل غزہ، لبنان یا ایران پر حملہ کرے یا ایران اسرائیل کو نشانہ بنائے، جنگ جنگ ہے جو سوائے تباہی کے اور کچھ نہیںجانتی۔ مشرق وسطیٰ میںاِس وقت جو صورت حال ہے وہ نئی ہے نہ غیر متوقع، اگر کوئی کہے کہ اُسے، اِس کے پھیلنے کا اندازہ نہیںتھا تو سمجھ لیجئے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جو کچھ ہورہا ہے اس کیلئے عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اور اسرائیل کی جارحیت کو شرف قبولیت بخشنے بلکہ اُس کی حوصلہ افزائی کرنے کی پرانی عادت اور اُتنی ہی پرانی روایت ذمہ دار ہے۔
  بائیڈن کی قیادت میںامریکہ سمجھ رہا تھا کہ اسرائیلی جارحیت سے حکمراںپارٹی کو انتخابی فائدہ ہوگا مگر جنگ جس طرح تیور بدل رہی ہے اور غزہ کی غیر معمولی تباہی کے خلاف جس طرح دُنیا بھر میںتل ابیب کے خلاف غم و غصہ بھڑکا ہے اُس سے بائیڈن، اُن کی ممکنہ جانشین کملا ہیرس اور اُن کی پارٹی تذبذب میںہونگے کہ اسرائیل کی مخالفت کریںتو امریکہ میںموجود یہودی لابی بگڑ جائیگی اور اگر حمایت کریںتو خود اپنے عوام کی مزید برہمی کا سامنا ہوگا جو غزہ میںاسرائیلی جارحیت روک نہ پانے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔ اِس طرح امریکی قیادت کیلئے اِس وقت ایک طرف کنواںہے تو دوسری طرف کھائی اور کوئی ایسا پیراشوٹ نہیںہے جو اُسے کنویںاور کھائی کے درمیان سے نکال کرمحفوظ مقام تک پہنچا دے۔ 

یہ بھی پڑھئے: پارٹی بدلنے کا جنون

 مگر اس کا فائدہ ٹرمپ کو بھی نہیںمل سکتا جو بھلے ہی یہ کہہ رہے ہیںکہ اگر وہ صدر ہوتے تو جنگ ہی نہ ہوتی مگر سب جانتے ہیںکہ وہ کس مزاج کے ہیں۔ اسرائیل اس صورت حال کا بزعم خود ’’فائدہ‘‘ اُٹھا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے پیروںپر کلہاڑی مار رہا ہے۔ عالمی رائے اُس کے خلاف ہوچکی ہے۔ اس رائے میںاسرائیل نواز حکمراںطبقے کے لوگ بھلے ہی شامل نہ ہوںمگر عوام تو بہر حال ناراض ہیں۔ ایسی ہی ناراضگی اسرائیل میںنیتن یاہو کے خلاف بھی ہے اور جہاںتک ہم سمجھتے ہیںاِس وقت نیتن یاہو بھی سخت مشکل میںہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بحیثیت سیاستداںاُن کے کریئر کی سب سے بڑی آزمائش یہی ہے جو اِن دنوںجاری ہے۔ وہ حماس کے حملے کے خلاف اسرائیلی عوام کو بچا نہ پانے کیلئے پہلے دن سے غم و غصہ کا ہدف بنے ہوئے تھے، مگر جب اُنہوںنے اس غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے غزہ پر تباہ کن جنگ چھیڑی تو جس غم و غصہ کو اُنہوںنے ٹھنڈا کرنا چاہا تھا وہ مزید بھڑک گیا۔ اس میںاُس تاخیر نے بھی کردار نبھایا جو یرغمالوںکی بازیابی میںہوئی۔ نتین یاہو اب بھی کئی یرغمالوںکو رِہا کرانے میںناکام ہیں۔
 اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو غطریس کا اسرائیل میںداخلہ بند کرکے نیتن یاہو کی حکومت نے عالمی مخالفت کے مزید دروازے اپنے لئے کھلوا لئے ہیں۔ ہر فیصلہ غلط ہوتا چلا جائے یہ تب ہی ہوتا ہے جب گھبراہٹ، کھسیاہٹ اور تلملاہٹ میںفیصلے کئے جائیں۔غطریس مخالف فیصلے سے نیتن یاہو اور اُن کی حکومت کی پریشانی ظاہر ہوتی ہے جس کا دعویٰ تو یہ ہے کہ اُسے اب تک کی جنگ میںبڑی کامیابی ملی ہے مگر جو سچائی ہے اُس سے خود یاہو اور اُن کی حکومت سے زیادہ بھلا کون واقف ہوسکتا ہے۔ یہ سب نہ ہوتا اگر فلسطین کے خلاف ظالمانہ پالیسی جاری رکھنے والی تل ابیب کی حکومت نے عالمی ضابطوںکو ملحوظ رکھا ہوتا اور اُس شیطنت سے کام نہ لیا ہوتا جس کی وجہ سے جنگ پھیلتی جارہی ہے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK