• Fri, 13 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جسٹس شیکھر کا بیان اور روح ِ آئین

Updated: December 11, 2024, 1:52 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

یہ فرمانے والے فاضل جج کہ ’’ ملک اکثریت کی خواہشات کے مطابق چلے گا‘‘ ماضی میں بھی ایسی کئی باتیں کہہ چکے ہیں جو آئین کی روح کے منافی ہیں ۔ کسی بھی جج کو ذاتی نظریات کا حق ہے۔ مگر وہ اُس کا انفرادی عمل ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 یہ فرمانے والے فاضل جج کہ ’’ ملک اکثریت کی خواہشات کے مطابق چلے گا‘‘ ماضی میں  بھی ایسی کئی باتیں  کہہ چکے ہیں  جو آئین کی روح کے منافی ہیں ۔ کسی بھی جج کو ذاتی نظریات کا حق ہے۔ مگر وہ اُس کا انفرادی عمل ہے۔ اُس کے ذاتی نظریات کو آئین کے نظریات پر سبقت نہیں  دی جاسکتی۔ آئین کی نظر میں  ملک کا ہر شہری یکساں  ہے، برابر ہے اور ملک کے وسائل پر اُس کا بھی اُتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے کا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیراعظم تھے تب اُن کے ایک بیان کا حوالہ دے کر اعتراض اور احتجاج کیا گیا تھا جبکہ اُس بیان کو سیاق و سباق کے حوالے کے بغیر دیکھا گیا اور صرف ایک جملہ دُہرایا گیا کہ ’’ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں  کا ہے‘‘۔ اگر فرض کرلیجئے کہ ڈاکٹر سنگھ نے وہی کہا تھا جس کا دعویٰ کیا جاتا رہا اور وہ قابل قبول نہیں  تھا تو جج صاحب کا یہ بیان کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے کہ ’یہ ملک اکثریت کی خواہشات کے مطابق چلے گا‘؟
 جسٹس شیکھر یادو نے مذکورہ اور ایسی ہی دیگر باتیں  وشو ہندو پریشد کے ایک جلسے میں  کہیں ۔ کیا اُنہیں  اُس جلسے میں  شریک ہونا چاہئے تھا؟ وشو ہندو پریشد کیا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ جسٹس موصوف وشو ہندو پریشد کی حقیقت سے واقف نہ ہوں  یہ بھی مانا نہیں  جاسکتا۔ تادم تحریر اُن کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں  آئی ہے مگر باعث اطمینان یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس قابل اعتراض بیان پر توجہ دی اور الہ آباد ہائی کورٹ کو، جس سے جسٹس شیکھر وابستہ ہیں ، ایک عدد نوٹس روانہ کیا ہے۔یہ بھی سنا جارہا ہے کہ بعض وکلاء جسٹس موصوف کے خلاف تحریک مواخذہ لانے کی تیاری کررہے ہیں ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کارروائیوں  سے کیا نتیجہ برآمد ہوگا مگر اتنا تو ہے کہ ان کی وجہ سے اُمید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں  جج حضرات اظہارِ

یہ بھی پڑھئے : علامتی انٹرویو اور راہل گاندھی

خیال کے دوران یا عدالتی تبصروں  کے دوران کوئی ایسی بات نہیں  کہیں  گے جو آئینی اقدار سے ماورا ہوں ۔ 
 ہم یہ نہیں  کہتے کہ ماضی کے تمام جج حضرات ذاتی نظریات کے معاملے میں  آئین کے مکمل طور پر پاسدار تھے مگر اتنا ضرور تھا کہ اُنہوں  نے کبھی بھی اپنے نظریات کو مسلط کرنے کی کوشش کی نہ ہی اُ ن کا برملا اظہار کیا۔ مگر اب صورت حال مختلف ہے۔ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی موجودگی کے باوجود مساجد پر دعوؤں  کی باڑھ آئی ہوئی ہے۔ یہ کیوں  ہورہا ہے؟ اس لئے کہ بابری مسجد کے خلاف طومار باندھنا ’’کامیابی‘‘ سے ہمکنار ہوا۔ وہ نہ ہوتا تو بہت ممکن ہے یہ سب بھی نہ ہوتا جو ہو رہا ہے۔ بابری مسجد کے خلاف جاری کی جانے والی تحریک مسجد کی مسماری ہی پر منتج نہیں  ہوئی بلکہ اراضی کا مقدمہ بھی مسجد کے حق میں  فیصل نہیں  ہوا۔ اس سے حوصلے تو بلند ہوں  گے ہی۔ ممکن ہے مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے والے عناصر یہ سوچتے ہوں  کہ جب بابری مسجد کی جگہ مل سکتی ہے تو دیگر مساجد پر دعویٰ کرکے متعلقہ زمینیں  کیوں  نہ ہتھیا لی جائیں  تاکہ اُن پر مندر بنا لیا جائے! اِس کی وجہ سے دعویداروں  کو شہرت بھی مل جاتی ہے اور سیاسی طور پر نوازے جانے کی اُن کی توقع بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہی تو ہورہا ہے۔ مگر یہ ملک و قوم کے مفاد میں  نہیں  ہے۔ ملک و قوم کا مفاد آئین سے وابستہ ہے جس کے بارے میں  ہر جج عہد کرتا ہے کہ وہ اس پر ’’سچا یقین رکھے گا اور اس سے مکمل وفاداری کرے گا‘‘۔ کیا جسٹس شیکھر کو یہ حلف اور عہد یاد نہیں  رہا؟ وہی بھول گئے تو قانون کی بالادستی کا کیا بنے گا؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK