جو لوگ اپوزیشن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے، اب اطمینان کا سانس لے رہے ہوں گے کہ انڈیا بلاک سے وابستہ پارٹیاں حکومت کو گھیرنے اور آڑے ہاتھوں لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی ہیں ۔
EPAPER
Updated: December 10, 2024, 1:27 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
جو لوگ اپوزیشن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے، اب اطمینان کا سانس لے رہے ہوں گے کہ انڈیا بلاک سے وابستہ پارٹیاں حکومت کو گھیرنے اور آڑے ہاتھوں لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی ہیں ۔
جو لوگ اپوزیشن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے، اب اطمینان کا سانس لے رہے ہوں گے کہ انڈیا بلاک سے وابستہ پارٹیاں حکومت کو گھیرنے اور آڑے ہاتھوں لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی ہیں ۔ انتخابی بے ضابطگی کے خلاف جو کچھ بھی کیا جانا چاہئے، اپوزیشن وہ کررہا ہے، اڈانی کیخلاف امریکی عدالت کی سماعت کے سلسلے میں بھی پارلیمنٹ میں حکومت سے جواب طلب کرنے اور اس کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس دوران گزشتہ روز پارلیمنٹ کے احاطے میں جہاں انڈیا بلاک کے اراکین پارلیمنٹ نے احتجاج کیا وہیں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے کانگریس کے دو اراکین پارلیمان کو ساتھ لے کر اور ان کے چہرے پر مودی اور اڈانی کا مکھوٹا لگا کر ایک علامتی انٹرویو کیا جس کی تفصیل خبروں میں موجود ہے۔ تسلیم کہ روایتی احتجاج عوام کو اتنا متوجہ نہیں کرتا جتنا کہ ایسا احتجاج جس میں ندرت اور نیا پن ہو مگر کیا متذکرہ علامتی انٹرویو راہل گاندھی کو کرنا چاہئے؟ ہمارے نزدیک یہ اہم سوال ہے۔ راہل گاندھی کی شبیہ ایک سنجیدہ سیاستداں کی ہے جس نے اپنے خلاف جاری ایک بہت طاقتور مہم کو ناکام بنانے کیلئے جنوب سے شمال اور مشرق سے مغرب تک کئی ہزار کلومیٹر کی پیدل یاترا کی اور یہ ثابت کیا کہ وہ پختہ عزم و عمل پر یقین رکھنے والے انسان ہیں ۔ دونوں یاتراؤں کے ذریعہ ایک سنجیدہ سیاستداں کے طور پر راہل نے خود کو منوایا اور ان تمام الزامات کو بے بنیاد ثابت کردیا جن کے ذریعہ ان کا مذاق اڑانے اور ان کی تحقیر کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ آپ نے دیکھا کہ پہلی یاترا کے دوران ہی ماحول بدلنے لگا تھا اور پھر کچھ ایسا بدلا کہ مخالفین نے مذاق اڑانا تو دور کی بات، ان کے بارے میں کہنا سننا ہی بند کردیا۔ بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ راہل نے اپنے آپ کو بدلا، خود بھی کہا کہ سابقہ راہل کو میں نے پیچھے چھوڑ دیا ہے (مفہوم)۔
یہ بھی پڑھئے : اسد خاندان کا سوال
راہل گاندھی یہیں پر نہیں رکے بلکہ پارلیمنٹ کی اپنی تقریروں کو زیادہ دھاردار بنا کر بھی انہوں نے اپنی نئی پہچان بنائی۔ حالانکہ جارحانہ تیور ان کی سنجیدہ شبیہ کے شایاں نہیں مگر اس طرز عمل کو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ان کی مجبوری یا حکمت عملی سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں وہ جارحانہ تیور ترک کردیں تب بھی ان کی باتیں اتنی اثر انگیز ہیں کہ حکمراں محاذ کیلئے راہ فرار تلاش کرنا مشکل ہوجائے کیونکہ ان باتوں میں معنویت بھی ہے اور گہرائی بھی۔ وہ عوامی جذبات کی عکاسی عمدہ طریقے سے کررہے ہیں ، ایسے میں ان کا ہر خاص و عام کی توجہ مبذول کرنے کیلئے کوئی حربہ آزمانا، جیسا کہ گزشتہ روز کا علامتی انٹرویو ہے، قطعی غیر ضروری ہے۔ یہ ان کی سنجیدہ شبیہ سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے اس وقت بھی راہل کی اسٹراٹیجی پر اعتراض کیا تھا جب انہوں نے وزیر اعظم کیخلاف ایسا لفظ استعمال کیا تھا جو ’’چنوتی‘‘ کا ہم قافیہ ہے۔ ہم اس لفظ کو دہرانا نہیں چاہتے۔ اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد کی اپنی ایک تقریر میں انہوں نے چند تصویریں دکھانے کی کوشش کی تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ لوک سبھا اسپیکر انہیں تصویریں دکھانے کی اجازت نہیں دینگے، راہل باز نہیں رہے جبکہ وہ جو کچھ بھی کہنا چاہتے تھے الفاظ کے ذریعہ بآسانی اور زیادہ موثر طریقے سے کہہ سکتے تھے، وہ ایسا کر بھی رہے تھے، تب تصویریں دکھانے کی ضرورت کیا تھی؟
راہل کو چاہئے کہ اپنے مشیروں پر واضح کریں کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے تاکہ وہ اسی مناسبت سے مشورے دیں اور وہی تراکیب سجھائیں جن سے سنجیدہ لیڈر کی ان کی حیثیت مستحکم ہو۔ الفاظ کے انتخاب میں سنبھلا ہوا انداز، گہری بات مگر نپا تلا لب و لہجہ انہیں زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔