مہاراشٹر میں مہایوتی کی نئی سرکار کی تشکیل کیلئے کتنی اُٹھا پٹخ ہوئی اس کا محض اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ ۱۲؍ دن تک حکومت کا تشکیل نہ پانا اس کا ثبوت ہے۔ اس اتحاد کو واضح اکثریت ملی تھی۔ کیسے مل گئی اس پر بہت کچھ کہا سنا جاچکا ہے۔
EPAPER
Updated: December 07, 2024, 1:55 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
مہاراشٹر میں مہایوتی کی نئی سرکار کی تشکیل کیلئے کتنی اُٹھا پٹخ ہوئی اس کا محض اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ ۱۲؍ دن تک حکومت کا تشکیل نہ پانا اس کا ثبوت ہے۔ اس اتحاد کو واضح اکثریت ملی تھی۔ کیسے مل گئی اس پر بہت کچھ کہا سنا جاچکا ہے۔
مہاراشٹر میں مہایوتی کی نئی سرکار کی تشکیل کیلئے کتنی اُٹھا پٹخ ہوئی اس کا محض اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ ۱۲؍ دن تک حکومت کا تشکیل نہ پانا اس کا ثبوت ہے۔ اس اتحاد کو واضح اکثریت ملی تھی۔ کیسے مل گئی اس پر بہت کچھ کہا سنا جاچکا ہے۔ ہم اُسے دہرانا نہیں چاہتے مگر واضح اکثریت کے باوجود ۱۲؍ دن تک حکومت نہ بنا پانے پر بہت سوں کو حیرانی ہے اور حکومت بن جانے کے باوجود رہے گی۔ ہوسکتا ہے ناراض ناراض سے نظر آنے والے سابق وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے ہی مزید حیرانی کا کوئی پہلو تراشیں ! اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کھلے دل سے حکومت میں شامل دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔ بہرکیف یہ اتحادی سیاست کا تقاضا تھا جس کے سبب بی جے پی اُنہیں نظر انداز کرکے حکومت بنانے کی پہل نہیں کرسکتی تھی ورنہ صرف بی جے پی اتنی سیٹیں حاصل کرچکی تھی کہ حکومت سازی کیلئے درکار جادوئی عدد کے بہت قریب تھی۔ جہاں تک اجیت پوار کا تعلق ہے، وہ مزے میں ہیں ۔ اُنہیں بھی سیٹیں ملیں اور شندے کی طرح حکومت میں حصہ بھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان پارٹیوں کو کب تک ساتھ رکھا جاتا ہے۔ یہ بات ا سلئے کہی جارہی ہے کہ بی جے پی پر چھوٹی پارٹیوں کی بیخ کنی کا الزام ہے۔ اس سلسلے میں لوگ شیو سینا اور این سی پی کی مثال دیتے ہیں جنہیں توڑ کر اُن میں سے نئی پارٹیاں نکالی گئیں اور اُن کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ شیو سینا ٹوٹنے کے بعد اُس کا ایک گروہ کب تک نئی ٹوٹ پھوٹ سے بچا رہے گا اور این سی پی ٹوٹنے کے بعد اُس کا بھی ایک گروہ کب تک متحد رہے گا یہ دیکھنے والی بات ہے۔یہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ پرانی پارٹیاں خود کو نئے سرے سے منوانے کیلئے کیا کرتی ہیں۔ اسمبلی الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کو ثابت کردیا گیا تب بھی اُن کیخلاف لعن طعن سے مذکورہ پارٹیاں نئے سرے سے خود کو مستحکم کرلیں گی یہ کہنا مشکل ہے۔ اُدھو اور شرد پوار کے سامنے اِس وقت بہت بڑا چیلنج ہے۔ مگر یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ شیو سینا (شندے) اور این سی پی (اجیت) کے سامنے کوئی چیلنج نہیں ہے۔ ان کے سامنے تو دُہرا چیلنج ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ۶؍ دسمبر یاد ہے، یاد رہے گا
بہرکیف، دیویندر فرنویس کی قیادت میں نئی مہایوتی حکومت تشکیل پاچکی ہے جسے ڈبل انجن سرکار ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ اس سے پہلی اُمید تو یہ کی جائیگی کہ ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کو اولین ترجیج دی جائے۔ الیکشن کے دوران ’’بٹیں گے تو -----‘‘ جیسے نعروں کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔ بی جے پی کو اگر اپنے ترقیاتی اہداف اور انتخابی حکمت عملی پر اعتماد تھا تو ایسے نعروں سے گریز کرنا چاہئے تھا مگر یہ نہیں ہوا۔ اب جبکہ الیکشن جیتا جاچکا ہے، حکمراں جماعت کو طے کرلینا چاہئے کہ مہاراشٹر میں ایسے نعروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انفراسٹرکچر پر بی جے پی کو بہت ناز ہے۔ اس سلسلے میں کئی دعوے بھی کئے جاتے ہیں مگر بہت سے پروجیکٹ بہت خام طریقے سے مکمل کئے گئے ہیں اور بہت سے ہنوز زیر تکمیل ہیں۔ خام طریقے سے مکمل ہونے والے پروجیکٹوں پر نظر ثانی ہو اور زیر تکمیل جو ہیں اُنہیں طے شدہ وقت پر مکمل کیا جائے۔ لاڈکی بہن یوجنا کی رقم بڑھانے کا وعدہ کیا گیا تھا، اسے فوراً سے پیشتر بڑھانا چاہئے۔ ریاست میں بے روزگاری کا وہی حال ہے جو پورے ملک میں ہے۔ مہاراشٹر کی شبیہ روزگار دینے والی ریاست کی ہے، اُسے، اس پر پورا اُترنا چاہئے۔ مہنگائی کو روکنے کے سلسلے میں کون سے اقدام ایسے ہیں جو کارگر ہوسکتے ہیں، حکومت کی اولین توجہ ان پر ہونی چاہئے۔