• Wed, 01 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

منموہن سنگھ اور سچر کمیٹی

Updated: December 29, 2024, 1:52 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی خدمات کو جب جب یاد کیا جائیگا، تب تب سچر کمیٹی کی رپورٹ کا تذکرہ ہوگا۔ کانگریس کے ارباب اقتدار و اختیار نے ۸؍ سال اپوزیشن میں رہنے کے بعد محسوس کیا ہوگا کہ بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے سبب مسلمان ناراض ہیں ، اُس سے دور ہوگئے ہیں اور ان کی حمایت حاصل کرکے ہی اقتدار کو بحال رکھا جاسکتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی خدمات کو جب جب یاد کیا جائیگا، تب تب سچر کمیٹی کی رپورٹ کا تذکرہ ہوگا۔ کانگریس کے ارباب اقتدار و اختیار نے ۸؍ سال اپوزیشن میں   رہنے کے بعد محسوس کیا ہوگا کہ بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے سبب مسلمان ناراض ہیں  ، اُس سے دور ہوگئے ہیں   اور ان کی حمایت حاصل کرکے ہی اقتدار کو بحال رکھا جاسکتا ہے۔ اسی لئے جب کانگریس از سر نو برسراقتدار آئی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزارت عظمیٰ سونپی گئی تو اُمورِ حکمرانی سنبھالنے کے ایک سال بعد ہی ملک کے مسلمانوں   کی سماجی، معاشی اور تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے اس نے ۷؍ رُکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جس کی قیادت دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کو سونپی گئی۔ اس کمیٹی نے قلیل وقت میں   جو رپورٹ پیش کی تھی اُسے ۳۰؍ نومبر ۲۰۰۶ء کو لوک سبھا میں   پیش کیا گیا تھا۔ 
 اسی کی سفارشات پر عملدرآمد کیلئے کچھ کام ہوا اور کسی حد تک عمل بھی ہوا مثلاً مسلم طلبہ کو مختلف عنوانات کے تحت تعلیمی وظائف دیئے جانے لگے مگر رفتہ رفتہ حالات بدلتے گئے اور بھلے ہی اسکالر شپ مزید کچھ عرصہ جاری رہی، سچر کمیٹی کی رپورٹ کو بھلا دیا گیا جس کے نتیجے میں   دیگر سفارشات پر عملدرآمد کی ’’نوبت‘‘ ہی نہیں   آئی۔ ۲۰۰۹ء کے بعد سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں   جاری یوپی اے دوئم حکومت سخت دباؤ میں   رہی، اس کے دورِ اول کی کشش ماند پڑنے لگی، بدعنوانی کے الزامات سے اسے لاد دیا گیا، انا ہزارے کی تحریک شروع ہوگئی اور ملک کے سیاسی حالات میں   غیر معمولی تبدیلی آنے لگی۔ تب ہی سے سچر کمیٹی کی رپورٹ فراموش ہونے لگی۔ آج کی کانگریس سے یہ اُمید کرنا کارِ بے فیض ہوگا کہ وہ سچر کمیٹی کی سفارشات کو من و عن نافذ کرے گی کیونکہ ۲۰۱۴ء میں   کانگریس کے ہاتھ سے اقتدار نکل جانے کے بعد پارلیمانی شکست کا جائزہ لینے کے لئے سینئر لیڈر اے کے انٹونی کی قیادت میں   جو پینل قائم کیا گیا تھا اُس نے ’’مسلم منہ بھرائی‘‘ پر سخت تنقید کی اور کہا تھا کہ اس کی وجہ سے ملک کے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں   کہ آیا کانگریس سماجی انصاف کو یقینی بناسکے گی۔

یہ بھی پڑھئے : ملک کا جنگلاتی نقصان

  یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انٹونی پینل کی رپورٹ کی وجہ سے کانگریس مسلمانوں   کے تعلق سے محتاط ہوگئی اور پھر یہ احتیاط اس حد تک بڑھی کہ احتیاط ہی احتیاط رہ گئی اور کچھ بھی باقی نہیں   رہا۔ کانگریس کی داخلی میٹنگوں   میں   بھی اب سچر کمیٹی کی رپورٹ کا ذکر نہیں   ہوتا جبکہ یہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دورِ حکومت کے نہایت اہم فیصلوں   میں   سے ایک فیصلہ تھا، کاش کہ ڈاکٹر سنگھ اِسے سو فیصد نافذ کرنے کے حالات میں   ہوتے اور کاش کہ کانگریس آج بھی اُن کی یادگار کے طور پر موجود سچر کمیٹی کی اتنی اہم دستاویز کو نئی زندگی عطا کرے۔ 
 ڈاکٹر منموہن سنگھ کم گو تھے اس لئے اُن کے فیصلوں   اور اقدامات کی بہت زیادہ گونج سنائی نہیں   دیتی تھی۔ وہ قول سے زیادہ فعل پر یقین رکھتے تھے اور اس ملک میں   اقلیتی اُمور سے متعلق اُن کا سب سے بڑا فیصلہ یہی تھا جس پر اس کالم میں   روشنی ڈالی جارہی ہے۔ اس رپورٹ نے کانگریس کی تب تک کی حکومتوں   کو آئینہ دکھایا تھا کہ ان کے اقتدار میں   ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی کیا حالت ہوگئی ہے کہ بیوروکریسی میں   اس کی نمائندگی ۲ء۵؍ فیصد سے زیادہ نہیں   ہے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK