• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

متوسط آمدنی کا جال

Updated: December 23, 2024, 1:59 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

بتایا جارہا ہے کہ ہندوستان متوسط آمدنی کے جال (مڈل انکم ٹریپ) میں پھنس سکتا ہے۔ پہلی مرتبہ اس اصطلاح کا استعمال عالمی بینک کی ایک رپورٹ (۲۰۰۷ء) میں کیا گیا تھا جس کا معنی ہے ملک بظاہر ترقی کرے مگر اس کی آمدنی بڑھنے کا نام نہ لے اور ہائی انکم اکنامی میں شامل نہ ہوپائے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 بتایا جارہا ہے کہ ہندوستان متوسط آمدنی کے جال (مڈل انکم ٹریپ) میں   پھنس سکتا ہے۔ پہلی مرتبہ اس اصطلاح کا استعمال عالمی بینک کی ایک رپورٹ (۲۰۰۷ء) میں   کیا گیا تھا جس کا معنی ہے ملک بظاہر ترقی کرے مگر اس کی آمدنی  بڑھنے کا نام نہ لے اور ہائی انکم اکنامی میں   شامل نہ ہوپائے۔ وِکست بھارت کا سپنا کیسے پورا ہوگا یہ ایک اہم سوال ہے اور جتنی بار اس کا استعمال کیا جاتا ہے اُتنی ہی بار یہ سوال جست لگا کر بالکل سامنے آجاتا ہے کہ ایک طرف تو متوسط آمدنی کے جال میں   پھنسنے کا خدشہ ہے اور دوسری طرف وکست بھارت کا خواب۔ یہ دونوں   ایک دوسرے کے قریب آتے نظر نہیں   آ رہے ہیں  ۔ بھارت وِکست تب ہوگا جب وہ ہائی انکم اکنامی کے دائرہ میں   قدم رکھے گا۔ اس کا امکان فی الحال معدوم ہے۔ 
 آگے بڑھنے سے قبل بتادیں   کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ۱۰۸؍ ممالک متوسط آمدنی کے جال میں   پھنسے ہوئے ہیں  ۔ ۱۹۹۰ء کے بعد صرف ۳۴؍ ممالک مذکورہ جال سے باہر نکلنے میں   کامیاب ہوئے ہیں  ۔ اس سلسلے میں   ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک بار کوئی ملک اس جال میں   پھنستا ہے تو اُسے باہر نکلنے کی جدوجہد اور اس کے بعد کامیابی میں   ۷۵؍ سال لگ جاتے ہیں  ۔ ورلڈ بینک گروپ کے چیف اکنامسٹ انٹرمٹ گل کا خیال ہے کہ عالمی غربت کو شکست دینے کا سہرا کسی ملک کے سر بندھ سکتا ہے تو وہ اسی جال میں   پھنسے ہوئے ممالک ہوسکتے ہیں  ، بہ الفاظ دیگر، جب وہ خود کو ہائی انکم اکنامی میں   شامل کرینگے اور ہائی انکم کی وجہ سے اُن کے ہاں   غربت کم ہوگی اور عالمی غربت قابو میں   آئے گی۔ ہندوستان میں   غربت کا جو حال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں   ہے۔ ہندوستانی معیشت کے حجم اور رفتار پر اپنی پیٹھ تھپتھپانے والے ہمارے ارباب اقتدار کیلئے باعث تشویش ہونا چاہئے کہ نہ توہماری غربت کم ہورہی ہے نہ ہی معاشی مساوات کی جانب ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں  ۔ اس کے برخلاف عدم مساوات بڑھتی جارہی ہے۔ یہی حال رہا تو مڈل انکم ٹریپ میں   پھنسنا آسان اور اس سے باہر نکلنا دشوار ہوجائیگا۔ 

یہ بھی پڑھئے: شخصیت سازی یا انعام؟

 اس کیلئے قرضوں   سے نجات پانا یعنی غیر معمولی رقم بطور سود ادا کرنے سے بچنا بہت اہم تدبیر ہوسکتی ہے مگر ہمارے ارباب اقتدار کی نظر اس پر بھی نہیں   ہے۔ ۲۶؍ جون ۲۰۲۴ء کو ہندوستان پر بیرونی قرض ۶۶۳ء۸؍ کھرب ڈالر تھا۔ کون نہیں   جانتا کہ قرض قرض ہوتا ہے خواہ بیرونی ہو یا اندرونی۔ ویسے اندرونی قرض بھی کچھ نقصاندہ نہیں   ہوتا اور ہندوستان کا حال یہ ہے کہ وہ بھی کم نہیں   ہے۔ ۲۰۲۳ء میں   اندرونی قرض ۱۳۱؍ کھرب روپے تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بلاسودی نہیں   ہے۔ اس پر جتنی خطیر رقم بطور سود ادا کی جاتی ہے اس رقم سے نظام تعلیم اور نظام صحت کو بہت آسانی سے لائق ستائش بنایا جاسکتا ہے مگر قرضوں   کی وجہ سے عوام بہتر زندگی کے ڈھیروں   مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں  ۔ ماہر معاشیات رتھن رائے کے مطابق ہندوستان کی نمو نچلی اور متوسط آمدنی کے درمیان ٹھہر گئی ہے۔ اُنہوں   نے ہندوستان میں   فی کس آمدنی ایک ہزارڈالر (کم و بیش ۸۵؍ ہزارروپے) تا ۳۸۰۰؍ ڈالر (۳ء۲۰؍ لاکھ روپے) کے قریب بتائی تھی۔ سہولت کیلئے اتنا یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کا شمار فی کس آمدنی والے ٹاپ ۱۰۰؍ ملکوں   میں   نہیں   ہوتا۔
 اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں   طویل سفر طے کرنا ہے جس کیلئے شارٹ کٹ کا استعمال ٹھیک نہیں   ہوگا۔ پالیسیاں   بدلنی ہونگی اور سیاست سے اوپر اُٹھنا ہوگا۔ 

world bank Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK