وائناڈ میں پرینکا گاندھی کا زائد از چھ لاکھ ووٹ حاصل کرنا اور اپنے مدمقابل کو زائد از چار لاکھ ووٹوں سے ہرانا کانگریس پارٹی کیلئے جتنی بڑی خوشی کی بات ہوسکتی تھی، اُتنی نہیں ہوئی۔ ریاست ِ مہاراشٹر کے نتائج نے اس خوشی کو خوشی نہیں رہنے دیا۔
EPAPER
Updated: November 26, 2024, 1:46 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
وائناڈ میں پرینکا گاندھی کا زائد از چھ لاکھ ووٹ حاصل کرنا اور اپنے مدمقابل کو زائد از چار لاکھ ووٹوں سے ہرانا کانگریس پارٹی کیلئے جتنی بڑی خوشی کی بات ہوسکتی تھی، اُتنی نہیں ہوئی۔ ریاست ِ مہاراشٹر کے نتائج نے اس خوشی کو خوشی نہیں رہنے دیا۔
وائناڈ میں پرینکا گاندھی کا زائد از چھ لاکھ ووٹ حاصل کرنا اور اپنے مدمقابل کو زائد از چار لاکھ ووٹوں سے ہرانا کانگریس پارٹی کیلئے جتنی بڑی خوشی کی بات ہوسکتی تھی، اُتنی نہیں ہوئی۔ ریاست ِ مہاراشٹر کے نتائج نے اس خوشی کو خوشی نہیں رہنے دیا۔ جھارکھنڈ میں ویسے تو ہیمنت سورین کی واپسی کانگریس کیلئے بھی امر ِ مسرت ہے مگر اس کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جسے وہ اپنی حصولیابی قرار دے سکے۔ اس نے ۲۰۱۹ء میں بھی ۱۶؍ سیٹیں جیتی تھیں ، اب بھی اُسے اِتنی ہی سیٹیں ملی ہیں ۔
پرینکا کی خبر دَب گئی مگر قومی سطح پر مرتب ہونے والے اس کے خوشگوار اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پرینکا کا جیتنا طے تھا، بالکل طے، اس کے باوجود اُن کی جیت اور حلقے کی نمائندگی کے اختیار پر الیکشن کمیشن کی مہر لگنی تھی جو لگ چکی ہے۔ لوک سبھامیں اُن کی موجودگی سے کانگریس کے اراکین کو تقویت حاصل رہے گی اور حکمراں جماعت کیلئے مشکلات کھڑی ہوں گی۔ پرینکا سوچ سمجھ کر اور سنبھل کر بولتی ہیں ۔ اُن کی گفتگو راہل گاندھی جیسی دھواں دھار نہیں ہوتی بلکہ اُن کا اپنا انداز ہے جو اُن کی دادی کے اندازِ گفتگو سے مشابہ ہے۔ برجستہ گوئی میں اُنہیں ملکہ حاصل ہے۔ موضوعات کے انتخاب میں بھی اُن کا جواب نہیں ۔ وہ عام آدمی کے بنیادی مسائل سے بحث کرتی ہیں اور انہی مسائل پر حکمراں طبقے کو للکارتی ہیں ۔ اب سے پہلے تک اُنہوں نے خود کو پارٹی کے انتظامی اُمور بالخصوص انتخابی معاملات تک محدود رکھا اور ماں سونیا گاندھی اور بھائی راہل گاندھی سمیت پارٹی کے دیگر اُمیدواروں کی کامیابی کی جدوجہد میں حصہ لیتی رہیں ۔ یہ پہلا موقع تھا جب خود اُمیدوار بن کر اُنہوں نے عوامی حمایت حاصل کی اور آئینی حیثیت حاصل کی ہے۔ لوک سبھا کے جاری اجلاس میں وہ حلف لیں گی اور رکن پارلیمان کی حیثیت سے پارٹی کیلئے اپنی خدمات پیش کریں گی۔ اُن سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ ایک کامیاب رکن پارلیمان ثابت ہوں گی اور جمہو ریت کو فائدہ پہنچائینگی۔
یہ بھی پڑھئے: کوئی عرش پر،کوئی فرش پر
پارلیمنٹ کی رُکنیت پرینکا کیلئے بڑا اعزاز ہے مگر نہیں ہے کیونکہ اُن کی پارٹی جیسی حالت میں ہونی چاہئے تھی، نہیں ہے۔ گزشتہ ایک سال میں اگر اس نے کرناٹک اور تلنگانہ میں حکومت بنائی ہے تو راجستھان اور چھتیس گڑھ گنوایا ہے۔ مدھیہ پردیش میں اس کی کامیابی کا اِمکان روشن تھا مگر وہاں بھی اسے بدترین شکست ہوئی۔ یہی حال ہریانہ میں ہوا۔ مرکز کی حکمراں جماعت کے ہمنوا چینل اور صحافی بھی ہریانہ میں اس کی جیت کی پیش گوئی کررہے تھے مگر یہ صوبہ کانگریس کے ہاتھ سے ایسے نکلا جیسے کوا ّکسی بچہ کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا کھینچ کر اُڑ جائے۔ مہاراشٹر میں پرتھوی راج چوہان کانگریس کے، اب تک کے آخری وزیر اعلیٰ تھے۔ تازہ انتخابات کے بعد مہاراشٹر اسمبلی میں اس کی سیٹیں بھی بہت معمولی رہ گئی ہیں ۔ صورتحال یہ ہے کہ دو تین ریاستو ں ہی میں اس کی حکومت رہ گئی ہے اور دو تین ریاستوں ہی میں اسے حکومت کی حصہ داری حاصل ہے۔
ان حالات میں کانگریس کو اپنا تنظیمی ڈھانچہ ازسرنو تشکیل دینا اور اسے مستحکم کرنا ہوگا اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ الیکشن جیتنا ہوگا۔ لگاتار الیکشن جیت کر ہی کوئی پارٹی اپنے سیاسی وجود کو بامعنی بناسکتی ہے۔ حالیہ شکستوں کی وجہ سے کانگریس اپنی معنویت کھوتی جارہی ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ وہ مہاراشٹر پارٹی کیلئے خواب بن گیا ہے جہاں ۵۴؍ سال میں اسکے ۱۵؍ وزرائے اعلیٰ نے ۲۴؍ مرتبہ حلف لیا۔