یوم اساتذہ قریب آگیا ہے۔ یقیناً اسکولوں اور کالجوں میں اس کے تعلق سے جوش و خروش پایا جارہا ہوگا۔ اچھا ہوتا اگر یہ جوش و خروش باہر بھی دکھائی دیتا۔ بیشتر اسکولوں میں یہ دن، جسے ہم بہت اہم اور قیمتی دن تسلیم کرتے ہیں ، روایتی طور پر منایا جاتا ہے، مثلاً طلبہ ٹیچر بنتے ہیں اور اساتذہ کو تحفہ دیتے ہیں ۔
یوم اساتذہ قریب آگیا ہے۔ یقیناً اسکولوں اور کالجوں میں اس کے تعلق سے جوش و خروش پایا جارہا ہوگا۔ اچھا ہوتا اگر یہ جوش و خروش باہر بھی دکھائی دیتا۔ بیشتر اسکولوں میں یہ دن، جسے ہم بہت اہم اور قیمتی دن تسلیم کرتے ہیں ، روایتی طور پر منایا جاتا ہے، مثلاً طلبہ ٹیچر بنتے ہیں اور اساتذہ کو تحفہ دیتے ہیں ۔ یہ روایت بہت پرانی ہے۔ اسے بند نہ کرتے ہوئے اسکولوں اور کالجوں کو چند نئے آئیڈیاز پر کام کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ طلبہ میں یوم اساتذہ کے تئیں جوش و خروش پیدا کیا جائے۔ یہ کیسے ہوگا؟ ازخود تو نہیں ہوسکتا! اس لئے یہ ذمہ داری خود اساتذہ کو قبول کرنی ہوگی کہ وہ ایسا ماحول بنائیں جس میں طلبہ کو احساس ہو کہ اُنہیں یہ دن بہ صد اہتمام نہایت منفرد انداز میں منانا چاہئے۔
یہ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں میں ، خواہ وہ کسی عمر کے ہوں ، اس دِن کا شعور اور احساس جگائیں اور اُنہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ اُنہیں اِس دن اپنے اساتذہ کے تئیں احسانمند ہونا ہے اور اس احسانمندگی کا کسی نہ کسی شکل میں اظہار بھی کرنا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کتنے والدین ایسا کرتے ہیں یا اُنہیں احساس ہے کہ ایسا ہونا چاہئے مگر یہ اب بھی نہ ہوا تو پھر کب ہوگا؟
دورِ حاضر میں ہر کوئی مان رہا ہے کہ طلبہ میں اساتذہ کے تئیں ادب و احترام کا وہ جذبہ نہیں رہ گیا ہے جو سابقہ ادوار میں ہوا کرتا تھا۔ اس کیلئے طلبہ کا بدلتا مزاج اور آس پاس کا ماحول تو ذمہ دار ہے ہی، کسی حد تک ذمہ داری خود اساتذہ کی بھی ہے۔ ہر گھرکے بڑے، بچوں میں یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ اُنہیں بڑوں کا ادب کرنا چاہئے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ آپ ہمارا ادب کریں ، وہ کہتے ہیں کہ بڑوں کا ادب کریں ۔ یہی طریقہ اساتذہ کو بھی اپنانا چاہئے کہ وہ اُن میں ادب و تعظیم کا جذبہ بیدار کریں ، اُنہیں ادب کرنا سکھائیں تاکہ اُن کا (اساتذہ کا) ادب ہو۔ادب سکھایا جاتا تھا، اب بھی سکھایا جانا چاہئے مگر افسو س کہ اب اس کام پر توجہ کم کم ہی ہے۔
معلوم ہوا کہ ’’یوم اساتذہ کیسے منایا جائے؟‘‘ کا انحصار طلبہ پر کم اساتذہ (اور والدین) پر زیادہ ہے۔ اس کیلئے یہ ہوسکتا ہے کہ اساتذہ، خود یہ نہ کہتے ہوئے کہ طلبہ کو کیا کرنا چاہئے، کلاس روم میں ’’برین اسٹارمنگ سیشن‘‘ کا انعقاد کریں اور طلبہ کو اظہار خیال کا موقع دیں کہ اِس خاص دن کی مناسبت سے کیا کیا ہونا چاہئے۔ اس سیشن میں ، ابتداء میں ، احمقانہ تدابیر سامنے آسکتی ہیں مگر جیسے جیسے سوچنے اور مزید غور کرنے کیلئے طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوگی، یقین جانئے بہت اچھی تدابیر پیش ہونگی۔ ان میں سے تین چار تدابیر کو یوم اساتذہ کیلئے حتمی شکل دی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بیاناتِ ہیمنت بسوا: افسوس، حیرت اور ترس
اس سلسلے میں اسکول کالج کے صدر دروازہ کے قریب کسی دیوار کو مختص کیا جاسکتا ہے جس پر طلبہ، اساتذہ کو نیک خواہشات پیش کریں مگر روایتی انداز میں یا گوگل سے نقل کرکے نہیں بلکہ اس طرح کہ اُن کی تخلیقی صلاحیت نمایاں ہو۔ اس دن طالب علم صرف ٹیچر نہ بنے، تمثیلی مشاعرہ کی طرز پر تمثیلی معلم بنے۔ اس دن اپنے محبوب استاذ کے نام پر شجرکاری بھی ہوسکتی ہے، پسندیدہ استاذ کی پسندیدہ کتاب کسی ہم جماعت کو تحفہ میں دینے کی صلاح دی جاسکتی ہے، وغیرہ۔ اس دن یہ بھی ضروری ہے کہ سماجی و فلاحی تنظیمیں اسکولوں کا دورہ کریں ، اساتذہ سے ملاقات کریں ، اُنہیں مبارکباد پیش کریں اور اُن کی خدمات کا اعتراف کریں ۔n