ای وی ایم کے خلاف عوام کی برہمی کبھی اتنی نہیں تھی جتنی مہاراشٹر کے حیران کن نتائج کے بعد منظر عام پر آرہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب الیکٹرانک ووٹنگ مشین شک و شبہ کے دائرے میں آئی ہو۔ گزشتہ ۱۰؍ برس میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ، کم یا زیادہ، ووٹنگ مشین پر سوالات اٹھے ہیں ۔
ای وی ایم کے خلاف عوام کی برہمی کبھی اتنی نہیں تھی جتنی مہاراشٹر کے حیران کن نتائج کے بعد منظر عام پر آرہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب الیکٹرانک ووٹنگ مشین شک و شبہ کے دائرے میں آئی ہو۔ گزشتہ ۱۰؍ برس میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ، کم یا زیادہ، ووٹنگ مشین پر سوالات اٹھے ہیں ۔ حالیہ انتخابات میں پولنگ کے بعد ظاہر کیا گیا فیصد اور پھر حتمی فیصد، دونوں میں معمولی فرق کے بجائے زیادہ فرق تشویش میں مبتلا کرتا ہے، اس پر الیکشن کمیشن سے شکایتیں بھی کی گئی ہیں مگر یہ الگ موضوع ہے۔ فی الحال ہم ووٹنگ مشین کے تعلق سے اظہار خیال کر رہے ہیں ۔ اس سے قبل ہریانہ کے انتخابی نتائج نے بری طرح چونکایا تھا۔ کیا تو ہر خاص و عام یہی کہہ رہا تھا کہ کانگریس جیتے گی لیکن سبقت بی جے پی کو حاصل ہوئی۔ مہاراشٹر نے تو ذہن کو ماؤف ہی کر دیا۔ وہ ریاست جو ایک زمانے تک کانگریس کی حکمرانی میں رہی، وہاں سے وہیں کی پارٹیاں یعنی شیوسینا اور این سی پی، اتنی بری طرح ہار جائیں گی یہ کسی کے سان و گمان میں نہیں تھا۔ یہاں شیوسینا اور این سی پی سے مراد ان پارٹیوں کے وہ گروپ ہیں جو ان کے بنیاد گزاروں کے ساتھ ہیں ۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ ہونے والے دھوکے سے عوام شدید ناراض ہیں اور جس طرح لوک سبھا میں انہوں نے ان پارٹیوں کا ساتھ دیا اسی طرح اسمبلی الیکشن میں بھی ہوگا مگر یہ دونوں پارٹیاں تو جیسے زمین ہی سے اکھڑ گئیں ۔ ان حالات میں نہ صرف سیاسی کارندوں بلکہ ان لوگوں کو بھی جن کا سیاست سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے ای وی ایم کو ہی شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں ناراضگی تو ظاہر کی جا رہی ہے، جگہ جگہ احتجاج بھی ہو رہا ہے مگر موجودہ سیاسی ماحول میں اس بات کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا کہ ان مشینوں کے خلاف کچھ کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کا جو طرز عمل ہے وہ سب کے سامنے ہیں ۔ یا تو یہ ادارہ کسی کی سنتا ہی نہیں ہے یا سن کر کچھ نہ کرنے کی اپنی روش پر قائم رہتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ الیکشن کمیشن بڑی سے بڑی ہی نہیں بلکہ چھوٹی سی چھوٹی شکایت پر بھی توجہ دے اور شکایت کنندگان کو تسلی بخش جواب دے یا ضروری اقدامات کرے مگر اب تک کا تجربہ اس کے برعکس ہے۔
یہ بھی پڑھئے:نوجوانوں میں اسکرین ٹائم کا مسئلہ
مہاراشٹر کے نتائج ظاہر ہوئے آج ۹؍ واں دن ہے۔ ان ۹؍ دنوں میں ای وی ایم کی بنیاد پر جو تشویش پیدا ہوئی ہے اسے ختم کرنے کیلئے ذمہ دار تو الیکشن کمیشن ہے لیکن اس کے طرز عمل کے پیش نظر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ جمہوریت کی بقاء کیلئے عدلیہ اپنا کردار ادا کرے۔ اس سے قبل جب شیوسینا اور این سی پی میں بغاوت ہوئی تھی تب بھی عدلیہ سے رجوع کیا گیا تھا۔ شیوسینا کے مقدمے میں عدالت کا فیصلہ ضرور آیا مگر اس موقف کے باوجود کہ نئی حکومت قانون کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے، عدالت نے مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ہوا اس کو بدلا نہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایسی حکومت جسے غیر قانونی کہا جاسکتا ہے اقتدار میں رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ درست ہونے کے باوجود زمینی صورتحال جوں کی توں رہی۔ اس پس منظر میں اگر یہ قیاس کیا جائے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ای وی ایم کیخلاف ہوگا تب بھی اس بات کا کیا امکان ہے کہ زمینی صورتحال بدلے گی یعنی ای وی ایم کے بجائے بیلٹ پیپر کو بحال کر دیا جائیگا؟ جواب آپ بھی جانتے ہیں ۔ اسکے باوجود اُمید کا دامن چھوڑا نہیں جاسکتا۔ ہم پُرامید ہیں آپ بھی رہیں ۔