موبائل اور انٹرنیٹ نے ہر خاص و عام پر کچھ ایسا جادو کیا ہے کہ جسے ہم جادو سمجھتے آئے ہیں وہ بھی اس ذوق و انہماک کو دیکھنے کے قابل ہو تو شرما جائے۔
EPAPER
Updated: December 01, 2024, 2:02 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
موبائل اور انٹرنیٹ نے ہر خاص و عام پر کچھ ایسا جادو کیا ہے کہ جسے ہم جادو سمجھتے آئے ہیں وہ بھی اس ذوق و انہماک کو دیکھنے کے قابل ہو تو شرما جائے۔
موبائل اور انٹرنیٹ نے ہر خاص و عام پر کچھ ایسا جادو کیا ہے کہ جسے ہم جادو سمجھتے آئے ہیں وہ بھی اس ذوق و انہماک کو دیکھنے کے قابل ہو تو شرما جائے۔ یہ کہنا کہ پختہ عمر کے لوگ سوشل میڈیا پر کم رہتے ہیں اور نئی نسل کے لوگ زیادہ، تو شاید یہ خود کو بہلانے والی بات ہوگی۔ سوشل میڈیا ہر عمر کے لوگوں کو اپنا گرویدہ اور دیوانہ بنا ئے ہوئے ہے۔ مگر، چونکہ اس کالم میں نوجوانوں کی کیفیت پر گفتگو مقصود ہے اس لئے بڑی عمر کے لوگوں کے رجحانات کو پھر کبھی موضوع بنایا جائیگا۔
’’پیو ریسرچ سینٹر‘‘ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق عنفوان شباب میں قدم رکھنے اور ٹین ایجر کہلانے والوں میں ایک اچھی روش دیکھنے کو مل رہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ چالیس فیصد افراد نے اپنا اسکرین ٹائم بڑی حد تک کم کرلیا ہے۔ یہ شاید بیداری کی اُس مہم کا نتیجہ ہے جس کے تحت نوجوانوں اور نوعمروں کو تسلسل کے ساتھ کہا گیا کہ وہ اپنا اسکرین ٹائم کم کریں کیونکہ جتنا وقت موبائل اور انٹرنیٹ پر گزارا جائیگا، اُتنا ہی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی صحت کیلئے نقصاندہ ہوگا۔مگر ۳۸؍ فیصد اب بھی ایسے ہیں جو اسمارٹ فون پر کافی وقت گزارتے ہیں جبکہ ۲۸؍ فیصد ایسے ہیں جن کے فاضل وقت کا بیشتر حصہ سوشل میڈیا پر گزرتا ہے۔
اگر اس سروے میں مثبت رجحان کو دیکھ کر آپ نے اطمینان کا سانس لیا ہو تو ٹھہریئے۔ یہ انکشاف امریکہ کے متعلق ہے جس سے واضح ہوا کہ امریکی نوعمر اور نوجوان اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کی فکر کرنے لگے ہیں ۔ تو کیا ہندوستان میں بھی ایسا ہوا؟ ہندوستان کا رجحان سمجھنے کیلئے ہم نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (آئی آئی ایم) کے ایک مطالعہ سے استفادہ کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستانی لڑکے اوسطاً پونے سات گھنٹے اسکرین کے سامنے گزارتے ہیں جبکہ لڑکیاں سات گھنٹے اور پانچ منٹ۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ بہت زیادہ ہے۔ امریکہ میں حالات بدل رہے ہوں تو الگ بات ہے، ہندوستان میں تبدیلی کی کوئی لہر نہیں چلی ہے۔ ہمارے یہاں ۶۰ء۶۶؍ فیصد نوجوان سوشل میڈیا کے الگ الگ پلیٹ فارمس پر موجود ہیں ۔ ان میں سے اکثر کی شامیں سوشل میڈیا پر گزرتی ہیں جبکہ اب سے پہلے شام کا وقت گھر کے لوگوں سے ملنے جلنے اور چائے یا ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ کر دن بھر کی اپنی اپنی کارگزاری سنانے کا ہوا کرتا تھا یا کچھ نوجوان کھیل کود کیلئے گھر سے باہر نکل جاتے تھے۔ شامیں اس طرح کبھی غارت نہیں ہوئیں جس طرح اب ہورہی ہیں اور جیساکہ آئی آئی ایم کے سروے سے ظاہر ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ۸۰۰؍ سالہ تاریخ کو جھٹلانے کی کوشش
ماہرین کا کہنا ہے کہ انسٹا گرام، وہاٹس ایپ اور فیس بک عکسی یا ورچوئل پبلک اسپیس ہیں جہاں نوجوان اپنے خیالات یا تجربات یا مشاہدات بیان کرتے ہیں یا گپ شپ کرتے ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ یہ پلیٹ فارمس رابطے کا بہترین ذریعہ ہیں مگر ان کی وجہ سے اسکرین ٹائم بڑھ گیا ہے جس کے مضر اثرات کے خلاف توجہ دلائی جاتی رہی ہے۔ آئی آئی ایم ہی کے مطالعہ سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ نئی نسل کے افراد روایتی فون کالس کے مقابلے میں وہاٹس ایپ کالنگ کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس میں پرائیویسی زیادہ ہے۔
نوعمروں اور نوجوانوں کے اسکرین ٹائم کا زیادہ ہونا کسی بھی زاویہ سے ٹھیک نہیں جس پر بالخصوص والدین کو متوجہ ہونا چاہئے۔ اس کیلئے اُنہیں اعتماد میں لینا ہوگا، سمجھانا ہوگا اور موبائل اور انٹرنیٹ کے مضر اثرات سے آگاہ کرنا ہوگا۔