جاب مارکیٹ میں سناٹا ہے۔ روزگار کے وعدے تو بلند بانگ تھے مگر روزگار کی فراہمی کے اقدامات ناکافی ہیں ۔ کوئی نہیں جانتاکہ یہ صورت حال کب تک قائم رہے گی۔ بے روزگار نوجوانوں پر کیا بیت رہی ہے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے
EPAPER
Updated: August 25, 2024, 3:12 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
جاب مارکیٹ میں سناٹا ہے۔ روزگار کے وعدے تو بلند بانگ تھے مگر روزگار کی فراہمی کے اقدامات ناکافی ہیں ۔ کوئی نہیں جانتاکہ یہ صورت حال کب تک قائم رہے گی۔ بے روزگار نوجوانوں پر کیا بیت رہی ہے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے
جاب مارکیٹ میں سناٹا ہے۔ روزگار کے وعدے تو بلند بانگ تھے مگر روزگار کی فراہمی کے اقدامات ناکافی ہیں ۔ کوئی نہیں جانتاکہ یہ صورت حال کب تک قائم رہے گی۔ بے روزگار نوجوانوں پر کیا بیت رہی ہے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے مگر جس چیز کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا وہ اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم اُن نوجوانوں کی کیفیت ہے جو یہ سوچ کر محنت کررہے ہیں کہ ملک کی اعلیٰ اور عمدہ ملازمتوں پر اُن کا نام لکھا ہوا ہوگا۔ کل تک، عمدہ تعلیم سے سرفراز ، پُرکشش ڈگریوں کے حامل اور اعلیٰ تعلیم گاہوں کے فارغ نوجوان اعلیٰ ملازمتوں کے حقدار قرار پاتے تھے۔ اب جو حالات ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں ۔ یوپی میں نچلے درجے کی مٹھی بھر ملازمتوں کیلئے جب ساڑھے تین ہزار پی ایچ ڈی، ۵۰؍ ہزار گریجویٹ اور ۲۸؍ ہزار پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں نے عرضی دی تو یہ خبر اتنی چونکانے والی تھی کہ کم و بیش ہر اخبار میں زیادہ یا کم اہمیت کےساتھ شائع ہوئی۔ کوئی اخبار اسے نظر انداز نہیں کرسکا۔ حکومت کو اس پر شرمسار ہونا چاہئے تھا مگر کیا ہوا؟ یہ وہ اسامیاں تھیں جن کیلئے درکار تعلیمی لیاقت صرف پانچویں پاس تھی۔ کہاں پانچویں اور کہاں گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی نوجوان، جنہوں نے بڑی تعداد میں عرضیاں دیں ۔ انہی برسو ں میں یہ بھی ہوا کہ ریلوے کی ایک لاکھ اسامیوں کیلئے دو کروڑ عرضیاں موصول ہوئیں ۔ دو ماہ قبل بھڑوچ (گجرات) میں صرف اور صرف ۱۰؍ اسامیوں کیلئے پونے دو ہزار (۱۸۰۰) نوجوان جمع ہوگئے۔ اس کے چند روز بعد ممبئی ایئرپورٹ پر انٹرویو کیلئے ۲۵؍ ہزار بے روزگار یکجا ہوگئے اور بھگدڑ کا اندیشہ پیدا ہوا۔ یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک میں روزگار کا قحط ہے۔ اس پر حکومت کیا کررہی ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ یا تو روزگار کی فراہمی ہو یا نوجوانوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ ان دونوں میں سے یا تو دونوں یا کوئی ایک بات ہو تب ہی اُس بے چینی کو دور کیا جاسکتا ہے جو بظاہر دکھائی نہیں دے رہی ہے مگر مذکورہ مثالوں سے جھلکتی ہے۔ بے روزگاری کی سنگین صورت حال کا پیدا ہوجانا تو افسوسناک ہے مگر اس سے زیادہ افسوسناک اس سے نمٹنے کی کوششوں کا فقدان ہے۔
یہ بھی پڑھئے:بُل ڈوزر راج اور تقاضۂ انصاف
اسی لئے، ہم نے کہا کہ جو نوجوان ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں وہ تو سخت آزمائش سے گزر ہی رہے ہیں اُن کے بارے میں سن سن کر اُن طلبہ کا ذہن کیا بن رہا ہے جو ابھی اسکولوں کالجوں میں ہیں ، یہ اہم سوال ہے۔ ہماری نظر میں بے روزگاری صرف بے روزگاری نہیں ، یہ تعلیم کی ناقدری بھی ہے کہ انسان محنت کرکے پڑھ لکھ لے، اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرلے اور پھر اُس کا شمار اُن لوگوں میں ہو جنہوں نے معمولی تعلیم حاصل کی ہے۔ یوپی میں پیون کی پوسٹ کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا عرضی دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ کئی بیرونی ملکوں میں بے روزگاری بھتہ ملتا ہے۔ کورونا کے دور میں بڑی تعداد میں امریکیوں نے بے روزگاری بھتہ کیلئے اپلائی کیا تھا۔ ہمارے یہاں یہ نظم بھی نہیں ہے۔ حکومت ’’ریوڑیاں ‘‘ بانٹنے پر اکتفا کررہی ہے جو فری راشن کی شکل میں ۸۰؍ کروڑ عوام کو مل رہی ہیں ۔ ایک طرف ’’ریوڑیوں ‘‘ پر تنقید بھی کی جاتی ہے اور دوسری طرف اسے جاری بھی رکھا جاتا ہے یہ عجب ستم ظریفی ہے۔ بے روزگاری کی شکل میں تعلیم کی ناقدری جاری رہی تو ’’سب کیلئے تعلیم‘‘ میں عوامی دلچسپی کے کم ہونے کا خدشہ پیدا ہوجائیگا۔ n