اقوام متحدہ کے نام سے شہرت رکھنے والے عالمی ادارے کی منافقت سب پر ظاہر ہے۔ اِس موضوع پراب تک لاکھوں صفحات سیاہ کئے جاچکے ہیں ۔
EPAPER
Updated: October 01, 2024, 4:54 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اقوام متحدہ کے نام سے شہرت رکھنے والے عالمی ادارے کی منافقت سب پر ظاہر ہے۔ اِس موضوع پراب تک لاکھوں صفحات سیاہ کئے جاچکے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے نام سے شہرت رکھنے والے عالمی ادارے کی منافقت سب پر ظاہر ہے۔ اِس موضوع پراب تک لاکھوں صفحات سیاہ کئے جاچکے ہیں ۔ جس نام سے اس کی شہرت ہے وہ تو بے معنی ہوچکا ہے، اس لئے بہتر ہے کہ اسے اقوام ِ منافقت ِ متحدہ کے نئے نام سے یاد کیا جائے۔ یہ منافقت ِ متحدہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ملک کے خلاف اقوام متحدہ جیسا ادارہ، جسے باوقار ہونا چاہئے تھا، قرارداد منظور کرتا ہے اُسی کے سربراہ کو جنرل اسمبلی میں شرکت کی دعوت بھی دی جاتی ہے اور تمام ممبران بیٹھ کر اُس کی بکواس سنتے بھی ہیں ۔ اِس بار نیتن یاہو کو جنرل اسمبلی میں اُس وقت سنا گیا جب غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارہ اور لبنان میں بھی اس کی انسان دشمن کارروائیاں جاری تھیں ۔اقوم متحدہ کے رُکن ملکوں میں بیشتر وہ ہیں جو اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت بھی کرتے ہیں اور اسرائیل سے تعلق بھی رکھتے ہیں اور امریکہ جیسے ملک اُسے مالی اور حربی تعاون بھی جاری رکھتے ہیں ۔ اس پس منظر میں غیرتمند دُنیا کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس منافقت اور دوغلے پن کے خلاف سرگرم ہوں ۔ جن ملکوں میں احتجاج ہورہا ہے وہ اپنا کام کررہے ہیں مگر اُن کا کیا جن کے ہتھیاروں سے بے گناہوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔
کیا اسلحہ فراہم کرنے والوں کو علم نہیں کہ اسرائیل یہ اسلحہ ااپنے اُن پڑوسی ملکوں کے خلاف ہی استعمال کریگا جن سے اُسے خدا واسطے کا بَیر ہے؟ اس کا معنی یہ ہے کہ ان ملکوں نے سب کچھ جانتے ہوئے اُس کی مدد کی اور اب جبکہ اس غیر معمولی مدد سے وہی ہورہا ہے جو ہوسکتا تھا یا جو طے شدہ تھا تو یہ ممالک آنسو بہانے یا مذمت کرنے کا ڈراما کررہے ہیں ۔ سنیچر کو نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی میں جو تقریر کی اُسے سب نے سنا۔ کیا اُس کا جواب نہیں دیا جاسکتا تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ جو کچھ کہہ اور کررہے ہیں اُسے آپ غلط نہ سمجھیں اور پھر اُن کی کارروائیوں پر افسوس کا اظہار کریں نیز اُن کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کریں ؟ جس کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہو اور گرفتاری وارنٹ کی تیاری مکمل ہوچکی ہو، وہ عدالتی مباحثوں اور تبصروں کو ’’غلط‘‘ اور ’’بے بنیاد‘‘ باور کراتے ہوئے، عالمی ادارہ میں ۱۹۳؍ ملکوں کے نمائندوں کی موجودگی میں اپنی بات بھی کہے اور اپنا دفاع بھی کرے تو یہ عالمی عدالت کی توہین ہےاور اس میں ۱۹۳؍ ممالک بھی توہین کا حصہ ہیں !
یہ بھی پڑھئے:وزیر مالیات سیتا رمن اور تنقیدیں
نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ وہ ’’ٹوٹل وِکٹری‘‘ چاہتے ہیں ، مکمل فتح۔ ہمارے خیال میں اس کا معنی غزہ، مغربی کنارہ اور دیگر فلسطینی علاقوں کے علاوہ لبنان اور یمن کو تباہ و تاراج کرنا اور ایران پر جھوٹے الزامات عائد کرکے اُسے عالمی دباؤ کے شکنجے میں کسنا ہے۔ یہ ادارۂ مذکور کی منافقت ہی ہے کہ جس اسرائیل کیخلاف مذمتی قرارداد منظور کی گئی اُس کا سربراہ ٹوٹل وِکٹری کی بات کرے اور اُسے سنا جائے۔ وہ ممالک قابل ستائش ہیں جنہو ں نے اس تقریر پر ناخوشی کا اظہار کیا۔ اگر غزہ کا قتل عام قابل مذمت تھا تو اس کا ذمہ دار ملک مزید ملکوں میں ویسا ہی کرنے اور ’’مکمل فتح‘‘ کے ’’عزم‘‘ کا اظہار کرے تو اُسے روکنا چاہئے۔ یہ منافقت بلکہ منافقت ِ متحدہ ہے تاکہ باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی۔ یہ نہ ہوتا تو دوٹوک کہہ دیا جاتا کہ پہلے جنگ بند کیجئے، اسکے بعد ہی لب کشائی کیجئے۔مگر یہ نہیں ہوا اسلئے لگتا نہیں کہ یہ ادارہ جنگ بند کرواسکے گا ۔