دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کا صدارتی انتخاب قریب آتا جا رہا ہے۔ اب یہ طے ہوچکا ہے کہ مقابلہ کملا ہیرس اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان ہوگا۔ یہ بھی واضح ہوتا جا ریا ہے کہ کملا ہیرس کا پلڑا بھاری ہے۔
EPAPER
Updated: September 09, 2024, 1:41 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کا صدارتی انتخاب قریب آتا جا رہا ہے۔ اب یہ طے ہوچکا ہے کہ مقابلہ کملا ہیرس اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان ہوگا۔ یہ بھی واضح ہوتا جا ریا ہے کہ کملا ہیرس کا پلڑا بھاری ہے۔
دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کا صدارتی انتخاب قریب آتا جا رہا ہے۔ اب یہ طے ہوچکا ہے کہ مقابلہ کملا ہیرس اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان ہوگا۔ یہ بھی واضح ہوتا جا ریا ہے کہ کملا ہیرس کا پلڑا بھاری ہے۔ اگر یہی صورت حال انتخابی مراحل کے اخیر تک جاری رہی تو ریاستہائے متحدہ امریکہ کو پہلی خاتون صدر میسر آئیگی اور امریکی عوام کو اس شرمندگی سے راحت مل جائیگی کہ خواتین کو بااختیار بنانے کی وکالت کرنے والا امریکہ آج تک خاتون صدر کا انتخاب نہیں کرسکا۔
مگر کیا ایسا ہوگا؟ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے۔ اس لئے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ایک ایسے حواس باختہ شخص کا نام ہے جس نے ہار جانے کے باوجود ہار ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت ان کے حامیوں نے جو کچھ کیا، اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ کوشش تھی بلکہ سازش رہی ہوگی کہ جمہوریت سے اقتدار ممکن نہیں ہوسکا تو طاقت سے حاصل کیا جائے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے واحد صدر ہیں جنہیں اقتدار سے پرامن دستبرداری منظور نہیں ہوئی، انہوں نے تشدد کی راہ اپنائی، امریکی جمہوریت کو داغدار کیا اور مواخذہ کا سامنا کرنے پر مجبور ہوئے۔
اسی بنیاد پر اب بھی اس بات کو خارج از امکان نہیں کہا جاسکتا کہ وہ الیکشن کے آخری مراحل تک سب کچھ ٹھیک نہیں رہنے دیں گے۔ خدا کرے کہ ہمارا اندیشہ غلط ثابت ہو مگر ڈونالڈ ہیں تو ممکن ہے، وہ بھی ممکن ہے جس کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: استقبالِ ماہِ ربیع الاول
جب یہ صورت حال ہو تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اب سے لے کر جنوری ۲۵ء تک کا وقت کتنا اہم ہے اور کتنی احتیاط چاہتا ہے۔ سپر پاور ہونے کی وجہ سے امریکہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہم یہ سوچ کر بے فکر نہیں ہوسکتے کہ امریکی انتخاب ہے، جو بھی نتیجہ ہوگا سامنے آجائیگا ابھی سے کیوں فکرمند ہوں ۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ڈونالڈ ہوں یا ہیرس، امریکہ کا ہر صدر یہودی لابی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ چاہے کچھ کہے، کتنا ہی لبرل ہو، فلسطین کے معاملے میں دوہری پالیسی ہی کا اسیر ہوگا، بائیڈن سے بڑی امید تھی مگر بائیڈن بھی وہی نکلے، ان کے دور میں غزہ میں چالیس ہزار شہری فوت ہوئے، اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے اور اس سے بھی زیادہ بے گھر ہوئے۔ یہ ساری باتیں درست ہیں مگر ان کا یہ مطلب نہیں کہ کم نقصاندہ کی امید نہ کی جائے۔ امریکی جمہوریت پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔ باعث اطمینان یہ ہے کہ امریکی عوام کی بڑی تعداد، بلکہ اکثریت، جمہوریت نواز ہے، انہی عوام نے دیگر ملکوں پر مسلط کی ہوئی جنگوں کے خلاف آواز بلند کی، حالیہ مہینوں میں غزہ کے قتل عام کے خلاف بھی امریکی عوام خاموش نہیں رہے۔ بہتر صدر کا انتخاب ہوگا تو یہی عوام وہائٹ ہاؤس پر بہتر فیصلوں کیلئے دباؤ ڈال سکیں گے اور غلط فیصلوں کے خلاف وہائٹ ہاؤس کو متنبہ کرسکیں گے۔
اب سے لے کر جنوری میں نئے صدر کے وہائٹ ہاؤس میں داخل ہونے تک کا وقت بہت اہم ہے۔ یہی دورانیہ کملا ہیرس کیلئے سخت آزمائش کا دور ہے۔ انہیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا، ٹرمپ کے ہتھکنڈوں سے باخبر رہنا ہوگا اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانا ہوگا۔