کا ش، ہم اِس ماہ کا استقبال بالکل ویسا کریں جیسا کہ اس کا حق ہے۔ کاش ہم جشن منانے کے ساتھ ساتھ پیغام ِ نبیؐ کو دل میں بسانے کیلئے بھی پُرجوش ہوں ۔
EPAPER
Updated: September 06, 2024, 1:44 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
کا ش، ہم اِس ماہ کا استقبال بالکل ویسا کریں جیسا کہ اس کا حق ہے۔ کاش ہم جشن منانے کے ساتھ ساتھ پیغام ِ نبیؐ کو دل میں بسانے کیلئے بھی پُرجوش ہوں ۔
کا ش، ہم اِس ماہ کا استقبال بالکل ویسا کریں جیسا کہ اس کا حق ہے۔ کاش ہم جشن منانے کے ساتھ ساتھ پیغام ِ نبیؐ کو دل میں بسانے کیلئے بھی پُرجوش ہوں ۔ کاش ہم دورِ حاضر کے حالات کی سنگینی کو سمجھیں ، اُمت مسلمہ کیلئے نزدیک و دُور ہر جگہ پیدا ہونے والے حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں ، اُس سے درست نتائج اخذ کریں اور لائحہ عمل مرتب کرکے کچھ اس طرح آگے بڑھیں کہ پھر آگے ہی بڑھتے رہیں ، پیچھے ہٹنے یا دیکھنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
یہ بات ہمہ وقت ہر خاص و عام کے ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ملت ِ اسلامیہ پر بہت بڑی ذمہ داری دعوت ِحق کی ہے۔ اس سے لاعلم کوئی نہیں مگر غافل تقریباً سب ہیں ۔ ا س کی فکر کر بھی لی جائے تو یہ ذمہ داری کس طرح ادا ہوگی جب نزدیک و دور کا ماحول برگشتہ ہے، اِس ملت کے افراد نے اپنے اطراف ایک حصار کھینچ لیا ہے، وہ اپنے آپ میں گم ہیں ، ’’یا شیخ، اپنی اپنی دیکھ‘‘ کا رجحان عام ہے اور بحیثیت مسلمان جو فرائض ہیں اُن پر توجہ جیسی توجہ نہیں ہے؟ ایک مسئلہ ملت کے افراد کی ’’قبولیت‘‘ (Acceptibility) کا بھی ہے جو وقت کے ساتھ کم سے کم تر ہوئی ہے۔ انفرادی و اجتماعی مسائل و مصائب سے انکار نہیں مگر انہی میں غارت و غلطاں رہ کر وسیع تر مفاد سے متعلق ذمہ داریاں بالائے طاق رکھنے کا مزاج بھی عام ہے۔
ملت کے افراد کی قبولیت کے کم ہونے کی دو بڑی وجوہات ہیں : ایک اپنی ہی کوتاہی۔ دوسرا مخالفین کا بدنام کرنے کا پروپیگنڈہ۔ ملت اِن دونوں کے پیدا کردہ عتاب کا شکار ہے۔ اگر مسلمانوں اور برادران وطن میں دوریاں بڑھی ہیں تو اس کے یہی دو اسباب ہیں ۔ اِن دوریوں کو کم کرنے کی کوئی بہت ٹھوس، مستقل، باقاعدہ اور منظم کوشش کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ ماہ ِ ربیع الاول میں جو ادارے اور تنظیمیں سیرت نبویؐ کو کتابی شکل میں برادران وطن تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں وہ بڑا کام کرتی ہیں مگر نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے جیسے برادران وطن بھلے ہی کہتے نہ ہوں مگر کہنا چاہتے ہوں کہ کتابیں تو عمدہ ہیں مگر ان کی عملی شکل کہاں ہے؟
یہ بھی پڑھئے: کتنے لوگ مناتے ہیں یوم اساتذہ؟
دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ برادران وطن سوچتے ہوں گے کہ اسلام تو اچھا ہے مگر مسلمان اچھے کیوں نہیں ہیں ؟ ہمارے خیال میں ماہِ ربیع الاول کا پیغام یہ ہے کہ سیرت نبویؐ میں ڈھلنے کی کوشش اولین ترجیح ہو جس سے ’’قبولیت‘‘ کا مسئلہ ازخود حل ہونے لگے گا۔ اکثر بیان کیا جاتا ہے کہ اِس دور میں ایک سنت نبویؐ کو زندہ کرنے والے کو سو شہیدوں کا ثوا ب ملے گا۔ جب اتنا بڑا ثواب ہے تو لین دین، امانت داری، ہمسائیگی، قرض حسنہ اور مسکرانے (کہ آپؐ کا چہرۂ مبارک ہمیشہ متبسم رہا کرتا تھا) اور نرم گفتاری یا معاف کرنے کی سنت پر عمل کا سلسلہ جا بہ جا کیوں نہیں ہے؟ علاوہ ازیں ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کا عملی مظاہرہ کیوں نہیں ہوتا؟
ماہِ ربیع الاول میں پیغام ہے، بہت بڑا پیغام۔ آپؐ کی سنتوں کو زندہ کرنے، زیادہ سے زیادہ اپنانے، دوسروں تک پہنچانے، دوسروں کو ان پر آمادہ کرنے اور اِس طرح اپنی زندگیوں کو سنوارنے کا پیغام۔خاص طور پر، آپؐ کی معاشرتی زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اِس ملت نے اپنی ساکھ کو بہت مجروح کرلیا، اب اسے مضبوطی عطا کرنے کی فکر ہونی چاہئے، یہ فکر انفرادی طور پر پختہ ہو اور اجتماعی طور پر پروان چڑھے۔ کیا یہ ماہ اس عہد کی دعوت نہیں دے رہا ہے؟