جب سے دُنیا یک قطبی ہوگئی ہے تب سے امریکہ کے صدارتی انتخابات پر پوری دُنیا کی نظر پہلے سے زیادہ مرکوز رہنے لگی ہے۔
EPAPER
Updated: November 12, 2024, 4:28 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
جب سے دُنیا یک قطبی ہوگئی ہے تب سے امریکہ کے صدارتی انتخابات پر پوری دُنیا کی نظر پہلے سے زیادہ مرکوز رہنے لگی ہے۔
جب سے دُنیا یک قطبی ہوگئی ہے تب سے امریکہ کے صدارتی انتخابات پر پوری دُنیا کی نظر پہلے سے زیادہ مرکوز رہنے لگی ہے۔ یک قطبی، دو قطبی اور کثیر قطبی کی بحث الگ ہے، بعض ماہرین اسے یک قطبی نہیں مانتے، وہ امریکہ کے ساتھ یورپی یونین کو شمار کرکے اسے دو قطبی قرار دیتے ہیں جبکہ بعض دوسرے ماہرین چین اور ہندوستان کو بھی خاطرخواہ اہمیت دیتے ہیں اور ترکی، انڈونیشیا اور میکسیکو کو بھی،اسی لحاظ سے وہ دُنیا کے کثیر قطبی ہونے کا نظریہ پیش کرتے ہیں ۔ یہ بحث کے مختلف زاویئے ہیں اور ہمارے خیال میں اس میں حصہ لینے والا اپنے زاویۂ نظر سے طے کرے گا کہ موجودہ دُنیا کو یک قطبی مانے یا دو قطبی یا کثیر قطبی،مگر، ہر شخص بالآخر یہ مانے بغیر نہیں رہے لگاکہ امریکہ سپرپاور ہے اور اسی لئےوہاں کےانتخابات پر دُنیا کی نظر رہتی ہے اور ہر حال میں رہنی بھی چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے:مہاراشٹر کا منتشرانتخابی منظر نامہ
حالیہ انتخابات میں کملا ہیرس کیوں ہاریں اور ڈونالڈٹرمپ کیوں جیتے جن کے خلاف سنگین الزامات کے تحت مقدمات چل رہے تھے، ان سوالوں کے جواب میں چند موٹی موٹی باتیں منظر عام پر ہیں مثلاً امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کا مسئلہ یا مہنگائی کا مسئلہ، مگر، ان کے علاوہ کون کون سے محرکات تھے، امریکہ کے اور دُنیا کے سرمایہ دار طبقے میں کون کس کی حمایت کررہا تھا یہ ’’اندر کی باتیں ‘‘ نہ تو جلدی سامنے آتی ہیں نہ ہی کبھی ان کی توثیق ہوپاتی ہے۔ گمان غالب ہے کہ سرمایہ داروں کے اعلیٰ طبقات نے ٹرمپ کی خاص طور پر مددکی۔ یہ وہ طبقات ہیں جو نئے طرز کے سرمایہ دارانہ نظام کا فروغ چاہتے ہیں ، جسے کرونی کیپٹلزم کہا جاتا ہے، اور جس میں چند سرمایہ دار یا صنعتکار ہر طرف راج کرنا چاہتے ہیں ۔ ٹرمپ ایک تاجر اور بزنس پرسنالیٹی کے طور پر کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ اُن کا جھکاؤ امریکہ کےاُن لوگوں کی طرف نہیں ہوسکتا جو محنت مزدوری کرکے پیٹ پالتے ہیں ، اُن لوگوں کی طرف بھی نہیں ہوسکتا جو تنخواہ دار ہیں ۔ اُن کا جھکاؤ امریکی اور عالمی بزنس کلاس کی طرف رہے گا جس نے در پردہ انتخابات میں مدد کی ہوگی اور اثرانداز ہونے کے نئےطریقوں کےذریعہ عوامی رائے کو ایک سمت عطاکی ہوگی۔
فنانیشل ٹائمس کے صحافی گلین ٹیٹ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ جس دن امریکہ میں پولنگ جاری تھی، ایک ڈنر پارٹی میں ایک کامیاب امریکی تاجر یہ کہہ رہا تھا کہ جاری انتخاب سرمایہ داری اور جمہوریت کے درمیان جنگ ہے اور انتخابی نتائج دونوں میں سے بہتر متبادل کا فیصلہ کرینگے۔ اس نقطۂ نظر سے ٹرمپ اور ہیرس کی انتخابی مہم کا جائزہ واضح کردیتا ہے کہ ہیرس کی پارٹی ٹرمپ کو جمہوریت مخالف کیوں قرار دےر ہی تھی اور ٹرمپ کی پارٹی ہیر س کو سرمایہ داروں کی مخالف کیوں بتا رہی تھی۔ حقیقت یہی ہے کہ انتخابات اور ان میں جیت ہار کا فیصلہ انہی دو معیارات پر ہورہا ہے،پہلے بھی ہوتا تھا مگر اب معاملہ دوسرا ہے۔اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جمہوریت نوازہے وہ سرمایہ داروں کا مخالف ہو ایسا نہیں ہے۔ اُس کا بھی جھکاؤ سرمایہ داروں کی طرف ہے یہ الگ بات کہ وہ اس جھکاؤ کو ظاہر نہیں کریگا۔ اسی لئے یہ شناخت مشکل ہوگئی ہے کہ کون مخلص ہے اور کون نہیں ہے، جو ہے وہ کتنا ہے اور کتنا نہیں ہے۔ دُنیا کو آپ یک قطبی مانیں یا کثیر قطبی، اس بات سے انکار نہیں کرینگے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام رفتہ رفتہ مستحکم ہورہا ہے۔