• Thu, 14 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جھارکھنڈ اور مہاراشٹرکیا رُخ اپنائینگے؟

Updated: November 13, 2024, 1:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جھارکھنڈ، جہاں آج پہلے مرحلے کی پولنگ ہوگی، کا منظرنامہ اتنا بکھرا ہوا نہیں ہے جتنا مہاراشٹر کا ہے۔ دونوں ریاستوں میں ویسے بھی کافی فرق ہے۔ جھارکھنڈ ہر پانچ سال میں اقتدار بدلنے والی ریاستوں میں سے ایک ہے جبکہ مہاراشٹر کا شمار اُن ریاستوں میں نہیں ہوتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 جھارکھنڈ، جہاں  آج پہلے مرحلے کی پولنگ ہوگی، کا منظرنامہ اتنا بکھرا ہوا نہیں  ہے جتنا مہاراشٹر کا ہے۔ دونوں  ریاستوں  میں  ویسے بھی کافی فرق ہے۔ جھارکھنڈ ہر پانچ سال میں  اقتدار بدلنے والی ریاستوں  میں  سے ایک ہے جبکہ مہاراشٹر کا شمار اُن ریاستوں  میں  نہیں  ہوتا۔ جھارکھنڈ میں  اتنی سیٹیں  نہیں  ہیں  جتنی مہاراشٹر میں  ہیں ۔ اول الذکر میں  ۸۱؍ سیٹوں  کیلئے الیکشن ہوگا جبکہ آخر الذکر میں  ۲۸۸؍ سیٹوں  کیلئے۔ جھارکھنڈ کی پارٹیوں  میں  ویسی ٹوٹ پھوٹ نہیں  ہوئی ہے جیسی مہاراشٹر کی دو بڑی پارٹیوں  میں  عمودی لکیر کھنچ جانے کی وجہ سے ہوئی۔ جھارکھنڈ کے مسائل اور مہاراشٹر کے مسائل میں  بھی یکسانیت نہیں  ہے سوائے اُن مسائل کے جو قومی سطح پر عوامی آزمائش کا سبب بنے ہوئے ہیں  مثلاً بے روزگاری اور مہنگائی۔ اگر ہریانہ کی مثال سامنے نہ ہوتی تو یہ کہنے میں  تامل نہ ہوتا کہ جھارکھنڈ میں  ہیمنت سورین کی پارٹی کانگریس کی مدد سے حکومت بنانے کے قابل ہوگی اور مہاراشٹر میں  مہا وکاس اگھاڑی کا پرچم بلند رہے گا۔ ہم کسی قسم کی پیش گوئی نہیں  کرنا چاہتے مگر ایگزٹ پول سے اتفاق بھی نہیں  کرتے جس میں  سروے ایجنسی میٹریز نے مہاراشٹر میں  مہا یوتی کی کامیابی کا غالب امکان ظاہر کیا اور کہا ہے کہ بی جے پی کی قیادت میں  قائم ہونے والے اس اتحاد کو، جس میں  شندے کی شیو سینا اور اجیت پوار کی این سی پی شامل ہیں ، ۱۴۵؍ سے ۱۶۵؍ سیٹیں  جبکہ جھارکھنڈ میں  این ڈی اے کو ۸۱؍ میں  سے ۴۵؍ تا ۵۰؍ سیٹیں  مل سکتی ہیں ۔ پیش گوئی کرنے والوں  میں  ایک عالمی سرمایہ کار اور مصنف رُچیر شرما بھی شامل ہیں  جن کی منطق الگ ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب بھی لوک سبھا کے چھ یا ایک ماہ کے اندر اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں  تو رائے دہندگان کا رجحان جوں  کا توں  رہتا  ہے لہٰذا جو نتائج لوک سبھا الیکشن میں  برآمد ہوئے تھے عموماً وہی اسمبلی الیکشن میں  برآمد ہوتے ہیں ۔ 

یہ بھی پڑھئے: سرمایہ دارانہ مفادات کی جنگ

 بہ الفاظ دیگر، رُچیر شرما یہ کہنا چاہتے ہیں  کہ مہاراشٹر میں  مہا وکاس اگھاڑی کی جے جے کار ہوگی جس نے لوک سبھا میں  ۴۸؍ میں  سے ۳۱؍ سیٹیں  جیت کر مہایوتی کو کہیں  کا نہیں  رکھا تھا جبکہ جھارکھنڈ میں  این ڈی اے کو اقتدار کی کنجی مل سکتی ہے جہاں  لوک سبھا میں  ۱۴؍ میں  سے بی جے پی  اتحاد کو ۹؍ سیٹیں  اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ نیز کانگریس کے انڈیا اتحاد کو ۵؍ سیٹیں  ملی تھیں ۔ ہر ایک کا اپنا اپنا خیال ہوتا ہے، اسی لئے رُچیر شرما کی رائے کو مسترد کرنا ٹھیک نہیں  مگر جھارکھنڈ کے سلسلے میں  سوال یہ ہے کہ وہاں  کی سب سے بڑی جماعت (جھارکھنڈ مکتی مورچہ) کو توڑنے اور نہ توڑ پانے کے بعد ہیمنت سورین کی گرفتاری اور قید کا معاملہ اگر جھارکھنڈ اور قبائلی آبادی کی تحقیر تھا تو عوام کس بنیاد پر بی جے پی کے اتحاد کو اقتدار سے نواز دینگے؟
  جہاں  تک مہاراشٹر کا سوال ہے، اس ریاست میں  مہا وکاس اگھاڑی کی جیت کا امکان تب ہی سے روشن ہے جب شیو سینا اور این سی پی کو توڑا گیا تھا مگر اب جو منظرنامہ ہے وہ دو شیو سینا، دو این سی پی، ایک کانگریس اور ایک بی جے پی کے علاوہ ایم آئی ایم اور ونچت بہوجن اگھاڑی کا میدان میں  موجود ہونا ہے۔ کئی جگہوں  پر سیٹ شیئرنگ فارمولہ کارگر ہوگا مگر کئی جگہوں  پر کارگر نہیں  بھی ہوسکتا ہے۔ اسلئے مہاراشٹر میں  سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ عوام کتنی سوجھ بوجھ کے ساتھ اپنے ووٹوں  کو مؤثر بناتے ہیں ۔ اگر منتشر منظرنامہ دیکھنے کے باوجود وہ بھی منتشر ہی رہے تو مہاراشٹر کو ہریانہ کی راہ پر جانے سے کوئی نہیں  روک سکے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK