سنبھل کے واقعات تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ ان واقعات کی تفصیل میں کئی باتیں ایسی ہیں جو فوری حل کی متقاضی ہیں مگر ریاستی انتظامیہ اس کی کتنی ضرورت محسوس کرتا ہے اور کیا اسے ریاست کے نظم و نسق سے کوئی دلچسپی ہے؟
EPAPER
Updated: November 27, 2024, 1:20 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
سنبھل کے واقعات تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ ان واقعات کی تفصیل میں کئی باتیں ایسی ہیں جو فوری حل کی متقاضی ہیں مگر ریاستی انتظامیہ اس کی کتنی ضرورت محسوس کرتا ہے اور کیا اسے ریاست کے نظم و نسق سے کوئی دلچسپی ہے؟
سنبھل کے واقعات تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ ان واقعات کی تفصیل میں کئی باتیں ایسی ہیں جو فوری حل کی متقاضی ہیں مگر ریاستی انتظامیہ اس کی کتنی ضرورت محسوس کرتا ہے اور کیا اسے ریاست کے نظم و نسق سے کوئی دلچسپی ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ اس کا جواب چونکہ اثبات میں نہیں مل رہا ہے اس لئے تشویش ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ مسجد پر مندر ہونے کا دعویٰ لے کر عدالت پہنچ جانا، پھر باقاعدہ مہم اور تحریک چلانا وغیرہ خاص رجحان (پیٹرن) بن گیا ہے۔ اس میں عدالتوں کا طرز عمل بھی افسوسناک ہے۔ جب ایک قانون منظور کیا جاچکا ہے اور اسے بھی دو دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے کہ بابری مسجد کے استثنیٰ کے علاوہ ۱۵؍ اگست ۱۹۹۲ء کو جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی اُس کی وہ حالت برقرار رہے گی اور اس سلسلے میں کسی طرح کی کوئی شنوائی نہیں ہوسکتی تو عدالتوں میں پہنچنے والی عرضداشتوں کو قابل اعتناء سمجھا ہی کیوں جاتا ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔ گیان واپی کی مسجد کے سلسلے میں یہی ہوا اور اب سنبھل کی شاہی مسجد کے سلسلے میں بھی یہی ہورہا ہے۔ بعض رپورٹوں میں درج یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ جب سول جج نے مسجد کے سروے کی اجازت دی اور کورٹ کے مقرر کردہ کمشنرنے مسجد کا رُخ کیا تو اُن کے ساتھ ساتھ یا اُن کے پیچھے پیچھے ایک بھیڑ پہنچی جو نعرے لگا رہی تھی۔ ہماری سمجھ سے یہ بات بالکل ہی بالاتر ہے کہ کمشنر یا سرویئر کے ساتھ بھیڑ کا کیا کام؟ کیا یوپی انتظامیہ اس مبینہ واقعہ پر کچھ روشنی ڈال سکتا ہے؟
ایسی بھی رپورٹیں ہیں کہ مسجد کے سروے کیلئے تشریف لے جانے والے کمشنر صاحب کسی اطلاع کے بغیر پہنچے تھے۔ سماج وادی کے سربراہ اکھلیش یادو کا الزام ہے کہ ایسا اس لئے کیاگیا تاکہ لوگ مشتعل ہوں ۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ وہاں سروے کے خلاف پُرامن احتجاج جاری تھا مگر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس چھوڑی، جس سے لوگ برہم ہوئے اور پتھراؤ کیا۔ اسی موقع پر فائرنگ ہوئی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ پرائیویٹ فائرنگ تھی جبکہ متاثرین کے اہل خانہ اور دیگر لوگوں کا، جو موقع پر موجود تھے، کچھ اور کہنا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ فائرنگ پولیس نے کی جس کے نتیجہ میں تین افراد کی جانیں گئیں ۔
ہندی اخبار ’’جن ستا‘‘ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ایک پولیس افسر کا باقاعدہ نام لے کر اُس کے الفاظ کو من و عن نقل کیا گیا ہے کہ ’’چلاؤ بے گولی، سب گولی چلاؤ‘‘۔ ہم اس بیان کی تصدیق نہیں کرسکتے مگر یہ ویب سائٹ پر چھپا ہے۔ اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اتوار کے تشدد کے کئی ویڈیو اب سوشل میڈیا پر جم کر وائرل ہورہے ہیں ۔ اسی سلسلے کا ایک ویڈیو میں پتھراؤ کے دوران پولیس کھلے عام فائرنگ کرتے دکھ رہی تھی۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: لوک سبھا میں پرینکا کی آمد
جن مقامی افراد نے پتھراؤ کیا، اُنہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، اس کیلئے پیش کیا جانے والا کوئی بھی جواز قابل قبول نہیں ہوسکتا مگر وہ پولیس جسے بھیڑ سے نمٹنے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے، فائرنگ کو واحد حل کیسے سمجھ بیٹھی، کیا ریاستی انتظامیہ اس کی جانچ کرائے گا اور خاطی افسروں اور اہلکاروں کو سزا دے گا؟ سنبھل کیوں نہیں سنبھل پایا اِس پر غور کرکے یوپی انتظامیہ اپنا ہی بھلا کرے گی کہ ریاستی نظم و نسق اسی کی ذمہ داری ہے۔ اس سوال کا جواب اس لئے بھی ضروری ہے کہ آئندہ پھر کسی شہر میں ایسی کوئی واردات نہ ہو۔