پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے پہلے ہمارے وزیر اعظم غیر ملکی دورہ سے لوَٹ کر آئے تھے اور کل جب اس اجلاس کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا تو وہ ایک بار پھر غیر ملکی دورہ پر روانہ ہوگئے ہیں۔
EPAPER
Updated: December 21, 2024, 12:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے پہلے ہمارے وزیر اعظم غیر ملکی دورہ سے لوَٹ کر آئے تھے اور کل جب اس اجلاس کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا تو وہ ایک بار پھر غیر ملکی دورہ پر روانہ ہوگئے ہیں۔
پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے پہلے ہمارے وزیر اعظم غیر ملکی دورہ سے لوَٹ کر آئے تھے اور کل جب اس اجلاس کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا تو وہ ایک بار پھر غیر ملکی دورہ پر روانہ ہوگئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ جو اجلاس ہوا، اُس کی یہ خاص بات برسوں یاد رکھی جائے گی کہ اس میں آئین پر بحث ہوئی۔ چونکہ ملک کے ایک ایک شعبے کی تمام تر کارکردگیوں کی بنیاد اور محور و مرکز آئین ہے اس لئے اِس غیر معمولی اہمیت کی دستاویز پر بحث ہونی چاہئے بلکہ ہوتی رہنی چاہئے تاکہ ملک کا ایک ایک شہری جان لے کہ یہ دستاویز صرف قانون سازی کیلئے نہیں ہے بلکہ قانون کی تشریح کیلئے بھی ہے، اس کی روح کو سمجھنا ازحد ضروری ہے ورنہ قانون کی اپنے انداز میں تشریح کے ذریعہ قانون کی روح کو مسخ بھی کیا جاسکتا ہے جیسا کہ کئی بار ہوچکا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: جو ہوا نہایت افسوسناک ہے!
وزیر اعظم نے سرمائی اجلاس میں آئین کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہا اُس میں اُن کے سابقہ دعوؤں اور غیر متعلق دلیلوں کی بازگشت ہی سنائی دی۔ اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ اُن کی حکومت پر اپوزیشن کا یہ الزام غلط ہے (اگر واقعی غلط ہے تو) کہ آئین خطرہ میں ہے، آئینی اداروں کی معنویت ختم کردی گئی ہے، اُن کی غیر جانبداری متاثر ہے اور اُنہیں کٹھ پتلی بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم سے اُمید کی جارہی تھی کہ وہ اپنی حکومت کی حصولیابیوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن کے دعوے کو پرزہ پرزہ کردینگے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اُن سے پہلے راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں گرو درونا چاریہ اور اُن کے شاگرد اکلویہ کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج پورے ملک میں غریبوں، کمزوروں، طالب علموں، مزدوروں اور حاشئے پر پڑے ہوئے دیگر طبقوں کے افراد کے انگوٹھے کاٹے جارہے ہیں جیسا کہ اکلویہ کو کرنا پڑا تھا۔ اس کے جواب میں صحیح اعدادوشمار کے ذریعہ یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ کس طرح یہ الزام غلط ہے، انگوٹھے کاٹنے کا سوال ہی پیدا ہی نہیں ہوتا، روزگار کے کتنے مواقع پیدا کئے گئے ہیں، ورک فورس میں خواتین کی نمائندگی کتنی بڑھی ہے، فی کس جی ڈی پی میں کتنا اضافہ ہوا ہے، ملک کی معیشت کس طرح آگے بڑھ رہی ہے اور اس کا فائدہ سماج کو کس طرح مل رہا ہے۔ یہ اس لئے ضروری تھا کہ ان تمام باتوں کا تعلق ملک کے ایک ایک شہری کے بنیادی حقوق سے ہے۔ شہریوں کا ایک بنیادی حق پُروقار زندگی گزارنے کی آزادی اور موقع ہے۔ یہ حق ملک کے شہریوں کو کتنا حاصل ہے؟
وزیر اعظم نے وِکست بھارت کے خواب کو آئینی اقدار کے ذریعہ فروغ دینے کے ضمن میں جس گیارہ نکاتی منصوبہ کا اعلان کیا اس میں مذکورہ بالا چند موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے مثلاً ہر زمرہ کو ملک کی ترقی کا حصہ ملنا چاہئے ، بدعنوانی کو بالکل برداشت نہیں کیا جائیگا، غلامی کی ذہنیت سے آزادی ملنی چاہئے وغیرہ مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ کیسے ممکن ہوگا؟ کیا یہ اہداف بار بار اور ہر بار کانگریس کو بُرا بھلا کہنے سے حاصل ہوجائینگے جو اقتدار میں بھی نہیں ہے؟مودی حکومت گیارہ سال سے اقتدار میں ہے اور اگر اس نے اب تک چند بنیادی مسائل کا حل تلاش نہیں کیا ہے تو یہ اس پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بدعنوانی کو موضوع بنا کر ہی یہ حکومت اقتدار میں آئی تھی مگر آج بدعنوانی کا حال کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔یہی معاملہ بے روزگاری کا ہے۔ اگر روزگار کے مواقع پیدا کئے گئے ہیں تو بے روزگاری کیوں بڑھی ہے؟