Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں!‘‘

Updated: March 08, 2025, 1:24 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

سماج اور معاشرہ پر سیاست اس حد تک حاوی ہوچکی ہے کہ سماج کے افراد بھی ایک دوسرے کے ساتھ سیاست کرنے لگے ہیں۔ سیاست ہی کی وجہ سے جھوٹ فروغ پا رہی ہے اور بے اعتباری بڑھ رہی ہے۔ مگر، اب بھی کچھ لوگ ہیں جو سچ کو قبول کرنے میں تاخیر نہیں کرتے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

کبھی  سنا ہے آپ نے کہ کسی سزا یافتہ مجرم کی سزامعاف کی جائے اور وہ کہے کہ نہیں  مَیں  نے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس لئے سزا برقرار رہے گی معاف نہیں  ہوگی؟ یہ ایسا مجرم ہے جو بزرگ بھی ہے اور سرطان کا مریض بھی رہ چکا ہے، اس کےباوجود بضد ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ جرم کا اقبال کرچکا ہے یا اُس پرجرم ثابت ہوچکا ہے۔ ایسے میں  سزا لازمی ہے اُسے معاف نہیں  کیا جاسکتا۔ اگر معاف کیا گیا تو  اُس عدالتی نظام کی توہین ہوگی جس کے رو برو اُس کا جرم ثابت ہوا اور جس نے اُسے سزا سنائی۔ آپ کہیں  گے بات کیا ہے، یہ تو ہرگز قرین قیاس نہیں  کہ سزا یافتہ مجرم سزا کی معافی سے ناخوش ہو اور اُس کے خلاف احتجاج کرے،ایسا تو شاذونادر بھی نہیں  ہوتا!
 اس مضمون نگار کو جرم،سزا، کئی سزا یافتہ افراد یا کسی ایک سزا یافتہ فرد کی تفصیل سے دلچسپی نہیں  ہے۔ دلچسپی کسی اور نکتے سے ہے مگر اُس نکتے کیلئے تھوڑی بہت تفصیل تو آپ کو سننی ہی پڑے گی۔ بات یہ ہے کہ اب سے چار سال پہلےجو بائیڈن سے شکست کھا نے کے بعد ڈونالڈٹرمپ انتخابی نتائج کو ماننے کیلئے تیار نہیں  تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’ انتخابی نتائج چرا لئے گئے ہیں ‘‘ اور دراصل وہ الیکشن جیتے ہیں ،  بائیڈن نہیں ۔ بہت سے امریکی اس جھوٹ اور جھانسے میں آگئے اور کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا ۔ اس واقعے کی تفتیش کے بعد امریکی پولیس نے ۱۶؍ سو افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی تھی۔ عدالت میں  اُن کے مقدمے کی سماعت ہوئی اور انہیں  سزا سنائی گئی۔ تمام مجرمین،سنائی گئی سزا بھگت رہے تھے کہ گزشتہ سال کے اواخر میں  دوسرا الیکشن ہوا اور ٹرمپ جیت گئے۔ 
 بحیثیت صدر حلف برداری کے بعد اُنہوں  نے کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں  کی سزا معاف کردی۔ اس سے مجرموں  میں  خوشی کی لہر دوڑ گئی سوائے ایک مجرم کے۔ پامیلا ہیمفل (تصویر دیکھئے بائیں  جانب) نامی ایک مجرم کا ردعمل انوکھا تھا۔ اُس نے سزا معاف کئے جانے کی مخالفت کی اور سوشل میڈیا پر اس کے خلاف احتجاج کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ۶؍ جنوری ۲۰۲۱ء کو کیپٹل ہل پر دھاوا  بولنے کیلئے وہ اپنے علاقے اِداہو (Idaho) سے بذریعہ طیارہ واشنگٹن ڈی سی پہنچیں  اور ٹرمپ کی اعلان کردہ رَیلی بعنوان’’مارچ ٹو سیو امریکہ‘‘ میں  شریک ہوئیں ۔ اپنی بیماری اور ضعیف العمری کے باوجود وہ کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والی بھیڑ کا حصہ بنیں  تاکہ طاقت کے ذریعہ ۲۰۲۰ء کے انتخابی نتائج کو بدلا جائے۔
 اُنہیں ساٹھ دن قید، پروبیشن آفیسر کے سامنے تین سال تک حاضری اور ۵؍ سو ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی گئی۔ ٹرمپ نے معافی نامہ پر دستخط کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ مجرم قرار پاچکے ہیں  اُن کی اکثریت سزا بھگت چکی ہے اس لئے اب اُنہیں  معاف کردینے میں  کوئی مضائقہ نہیں  ہے۔ اغلب ہے کہ پامیلا کی سزا بھی مکمل ہوچکی ہو اس کے باوجود انہیں  ٹرمپ کا معافی کا اعلان قبول نہیں ۔ ہوسکتا ہے آپ سوچ رہے ہوں  کہ ٹرمپ کی حامی کو ٹرمپ ہی کی معافی پر اعتراض کیوں  ہے؟
  وہ اس لئے کہ ۲۰۲۱ء کی پامیلا اور ۲۵۔۲۰۲۴ء کی پامیلا میں  زمین آسمان کا فرق ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُس وقت اُنہیں  یہ احساس کرایا گیا تھا کہ انتخابی نتائج چرا لئے گئے ہیں  مگر بعد میں  معلوم ہوا کہ یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ تھا جس کا مقصد امریکی نظام کو تہ و بالا کرنا تھا۔ تب اُن کے ضمیر نے ملامت کی اور وہ اس اعتراف پر مجبور ہوئیں  کہ ’’ہم غلطی پر تھے‘‘۔ اس اعتراف کے ساتھ ہی وہ ٹرمپ کی حمایت سے توبہ کرکے ٹرمپ کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئیں ۔ ۲۰۲۴۱ کے صدارتی انتخاب میں  پامیلا نے کملا ہیرس کی کامیابی کیلئے جدوجہد کی۔ نہ تو ان کی جدوجہد کامیاب ہوئی نہ ہی کملا ہیرس الیکشن جیت پائیں  مگر ایسے دور میں  جب ضمیر کی آوازسننے والا کوئی نہیں  ہے اور کسی کو یہ علم تک نہیں  کہ ضمیر بھی کوئی چیز ہے، اس خاتون نے جو سرطان میں  مبتلا رہ چکی ہیں  اور عمر کی ۷۲؍ ویں  منزل میں  ہیں ، ضمیر کی آواز پر پہلے وفاداری بدلی اور پھر صدارتی معافی کو ٹھینگا دکھا دیا۔ جانتے ہیں  آپ پامیلانے کیا کہہ کر صدارتی معافی کی مخالفت کی؟
 پامیلا نے کہا: ’’یہ معافی کیپٹل ہل کے تحفظ پر مامور پولیس افسران کی توہین ہے، قانون کی بالا دستی کی توہین ہے اور ملک نیزاس کے عوام کی توہین ہے۔ معافی کو قبول کرلینا جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ کو تسلیم کرنے جیسا ہوگا جو ۶؍ جنوری کے واقعات کا سبب بنا۔‘‘

یہ بھی پڑھئے : شکریہ! ہندی کے اُردو دوستوں، ادیبوں اور صحافیوں کو

 پامیلا صرف اس لئے بہادر نہیں  ہیں  کہ انہوں  نے صدارتی معافی کو تسلیم نہ کرنے کی جرأت دکھائی، وہ اس لئے بھی بہادر ہیں  کہ اُنہوں  نے اس غلطی کا اعتراف کیا کہ اب سے چار سال پہلے اُنہوں  نے جھوٹ کو سچ مان لیا تھا، پروپیگنڈہ کا اثر قبول کرلیا تھا،اپنے طور پر حقائق کی تفتیش و تحقیق نہیں  کی تھی اورکیپٹل ہل پر حملہ کرنے والی بھیڑ کا حصہ بن گئی تھیں ۔ سنتے ہیں  کہ امریکی بحریہ کے ایک سابق افسر جیسن رِڈل نے بھی صدارتی معافی کو ٹھکرا یا ہے۔ 
 امریکی قانون اور ماضی کے عدالتی فیصلوں  کے پیش نظر لگتا تو نہیں  کہ سزا ٹھکرانے کی پامیلا کی درخواست قبول کی جائیگی مگر اُنہوں  نے بے ضمیری کے دور میں  ضمیر کی آواز بلند کرکے بڑاکام کیا ہے۔ آج کل یہ شے، جسے ضمیر کہتے ہیں ، عنقا ہے۔ جھوٹ پر جھوٹ بولنا، جھوٹ قبول کرلینا، سچائی جاننے کی کوشش تک نہ کرنا، دلیلوں  کے باوجود دعوؤں  کے پھیر میں  پڑجانا، سماجی و معاشرتی اقدار کو تسلسل کے ساتھ ٹھیس پہنچانا اور اس طرح انسانی و اخلاقی قدروں  کے خلاف محاذ آراء ہونا عام ہو گیا ہے۔ پامیلا کو جب ضمیر ملامت کر رہا ہوگا تب اُن کے دل میں  آیا ہوگا کہ غلطی تو ہوگئی مگر اس کا اعتراف اور اظہار کیسے کیا جائے کہ سامنے ٹرمپ جیسی بڑی طاقت ہے۔ مگرانہوں  نے اس خیال کو جھٹک دیا ہوگا اور یہی اعتراف حق کاتقاضا ہےکہ جب حق کو قبول کرو تو کسی حیل حجت کے بغیر قبول کرو۔ اس میں  اگر مگر کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ یہ امر چوطرفہ خرابیٔ حالات کے باوجود باعث اطمینان ہے کہ ابھی کچھ لوگ ہیں  جن میں  جرأت ہے، جو ضمیر کی سنتے ہیں  اور اپنے فیصلوں  پر ندامت کے ذریعہ سرفراز ہوتے ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK