Inquilab Logo Happiest Places to Work

سب غارت و غلطاں ہیں عجب دَور یہ آیا!

Updated: April 12, 2025, 1:42 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

بچپن بچپن جیسا نہیں رہ گیا ہے۔ یہ بات سب کرتے اور کہتے ہیں مگر کوئی نہیں ہے جو اس کے مضمرات اور اثرات پر غور کرے اور سدباب کی راہ دکھائے۔ ایسا لگتا ہے سب تھک ہار کر بیٹھ چکے ہیںاور خود بھی اسی طرح مبتلا ہیں جس طرح بچے اور نوعمر ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

شاید ہی کوئی ہو جو بچپن کی یادوں  میں  ’’عیدی‘‘ کو شمار نہ کرے۔عید سال بھر میں  ایک بار آتی ہے، عیدی بھی سال بھر ایک ہی بار ملتی تھی مگر اُس کے پانے کی خوشی کا احساس عجب تھا کہ آج بھی برقرار ہے۔ معاشرہ اس حسین روایت سے چشم پوشی کرنے لگا ہو ایسا نہیں  ہے مگر عیدی پاکر جو خوشی آج کے بڑوں  کو اپنے بچپن میں  ملتی تھی، آج کے بچوں  کو نہیں  ملتی۔ اُس دور میں  بچے عیدی پاکر پھولے نہ سماتے اور نہ ملنے پرمنائے نہ منتے تھے۔ پتہ نہیں  کیوں  ایک خصوصیت اُن میں  یہ ہوتی تھی کہ اپنی عیدی چھپاتے تھے اور کوئی دریافت کرلیتا تو رونی صورت بناکر شکوہ کرتے کہ ہمیں  اتنی (ہی) ملی ہے یا بعض بچے بڑھا چڑھا کر بتاتے تھے تاکہ اُن کا سربلند رہے اور دوسرے اُن پر رشک کریں ۔ کتنے ہی بچے بڑے جتن سے عیدی کے پیسے گلک میں  رکھ کر گلک کو کسی ایسی جگہ چھپا دیتے تھے جہاں  کسی کی رسائی نہ ہو، یہ الگ بات کہ وہ،گلک چھپا کر بھی چھپا نہیں  پاتے تھے۔ کسی نہ کسی کا ہاتھ وہاں  تک پہنچ ہی جاتا تھا جہاں  گلک رکھا ہوا ہوتا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: نیا وقف قانون: حقائق اور اعتراضات

 ایک عیدی ہی نہیں ، بچپن کی ایسی کتنی یادیں  آج کے بڑوں  کا بہترین اثاثہ ہیں ۔ بچیاں  لنگڑی کھیلتی تھی، رسی کودتی تھیں ، گھر بناتی تھیں ، جھوٹ موٹ کا باورچی خانہ سجاتی تھیں  اور اُن میں  طرح طرح کے پکوان تیار کرتی تھیں ۔ اُن کی چھوٹی چھوٹی ہانڈیاں ، سل بٹہ، چکلا بیلن، چھوٹے چھوٹے چمچے، پیالیاں  اور نہ جانے کیا کیا۔ وہ اپنی دُنیا میں  مست رہتی تھیں  اور کھیل کھیل میں  گھر گرہستی کی ذمہ داری سنبھالنے کی گویا مشق کرلیتی تھیں ۔ اسی لئے شادی ہوکر گھر سے وداع ہوتی تھیں  تو میکے کی عزت بن کر سسرال کے ہر خاص و عام کا دل جیتتی تھیں ۔ لڑکوں  کے بھی اپنے کھیل تھے جو وہ عموماً گھر کے باہر کھیلتے تھے۔ ان میں  سب سے محبوب کھیل گلی ڈنڈا تھا۔اس کھیل میں  لڑکے تھک کر بھی نہیں  تھکتے تھے۔کنچے، بنٹے یا گولیوں  کا کھیل بھی اُنہیں  مرغوب ہوتا تھا، کبڈی بھی خوب کھیلی جاتی تھی۔ درختوں  پر چڑھنا، آبادی کے باہر کھیتوں  میں  گھومنا، غلیل چلانا، دوڑتے دوڑتے بیل گاڑی کو چھو‘ لینا اور گاڑی بان کے  دھمکانے سے پہلے اُس پر سوار ہونے کا اپنا ہنر آزمانا، اُن کا معمول تھا۔ وہ جہاں  سے جس سرگرمی کا آغاز کردیتے، وہاں  سے اپنی اُس دن کی خوشی سمیٹ لیتے تھے۔آپس میں  لڑتے بھڑتے بھی تھے، اسے بھی ایک طرح کا کھیل ہی سمجھنا چاہئے، مگر تھوڑی بعد ایک دوسرے کے گلے میں  ہاتھ ڈال کر دوستی بھی خوب نبھاتے تھے۔اُس دور کے بچوں  میں  نقلی نوٹ جمع کرنے کا رجحان بھی مزے کا تھا۔سودا لانے بازار بھیجے جاتے تھے اور اگر سر راہ کوئی مداری تماشا دکھاتا ہوا مل جاتا تو وہیں  رُک جاتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ گھر واپسی کے بعد تاخیر سے لوَٹنے پر ڈانٹ پڑتی تھی جو ہلکی چپت جیسی ہوتی اور محسوس نہیں   ہوتی تھی کیونکہ تب بھی ذہن میں  مداری کا کھیل ہی جاری رہتا تھا۔  
 یہ وہ بچپن ہے جو ہم ایسوں  نے دیکھا اور جیا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ لوگ جو خوشحال گھرانوں  میں  پیدا ہوئے اُن کے کھیل الگ طرح کے رہے ہوں  اور اُن کی خوشیوں  کا مآخذ کچھ اور رہا ہو ، اس کے باوجود ہمیں  آج بھی گلہ نہیں  کہ ہم اتنے کم وسائل میں  کیوں  پلے بڑھے۔ گزشتہ دِنوں   بل گیٹس کا ایک مضمون زیر مطالعہ رہا جس میں  اُنہوں  نے لکھا ہے کہ ’’بچپن میں  جب بورئیت ہوتی تھی تو مَیں  اپنے کمرے میں  چلا جاتا اور کتابوں  یا نت نئے خیالات میں  کھو جاتا تھا۔ اسی عالم ِ محویت میں  کئی کئی گھنٹے گزر جاتے تھے۔ فاضل وقت کو گہری سوچ میں  بدلنے کی اِس صلاحیت اور اِس طرح سیکھنے کے عمل نے مجھے وہ بنایا جو مَیں  آج ہوں ۔‘‘ اُن کی یہی عادت اور عمل کس طرح آگے چل کر اُن کیلئے مفید ثابت ہوا یہ اِن سطروں  میں  ملاحظہ کیجئے: ’’۹۰ء کی دہائی میں  مائیکروسافٹ میں ، کمرے میں  گھس کر خود کو کتابوں  کے حوالے کردینے اور سوچنے کا عمل اس طرح جاری رہا کہ مَیں  ’’تھنک ویک‘‘ (غوروخوض کا ہفتہ) منانے لگا۔ اس ہفتے میں ، مَیں  خود کو تمام کاموں  اور سرگرمیوں  سے فارغ کر لیتا اور واشنگٹن کے ہوڈ کنال کے اپنے کیبن میں  پہنچ کر بالکل الگ تھلگ ہوجاتا تھا۔اُس وقت مَیں  ہوتا اور میری کتابوں  کا بڑا سا تھیلہ اور ٹیکنیکل پیپرس ہوتے تھے۔ سات دِن مَیں  کتابوں  کے درمیان رہتا، پڑھتا، لکھتا، سوچتا، غور کرتا اور مستقبل کا نقشہ بناتا تھا۔ فکر و تدبر سے تھوڑی دیر کیلئے تب ہی باہر نکلتا جب ملازم میرے لئے کھانا لے کر آتا تھا۔اِس دوران مجھ پر ایسی محویت طاری رہتی تھی کہ کئی کئی دن ای میل بھی چیک نہیں  کرتا تھا کہ کس نے کیا لکھا ہے۔‘‘ (مضمون ’’دی کوسٹ آف گروئنگ اَپ آن لائن‘‘ مطبوعہ ۳؍ دسمبر ۲۴ء)۔ 
 بل گیٹس نے اس مضمون میں  آگے چل کر لکھا ہے کہ’’ اگر مَیں  آج کےد ور میں  اپنا بچپن اور نوعمری گزار رہا ہوتا تو جس کمرے میں  گھس کر کتابیں  پڑھتا اور غوروخوض کیا کرتا تھا، اُس میں  میرے پاس کوئی نہ کوئی ایپ ہوتا جسے مَیں  اسکرول کرتا رہتا، سوچنا شروع بھی کرتا تو سوچ کا تانا بانہ بار بار ٹوٹتا کیونکہ کسی نہ کسی پیغام (مسیج) کی بیپ مجھے بار بار سنائی دیتی اور مَیں  یکسو‘ نہ رہ جاتا۔‘‘
  اپنے مضمون میں  بل گیٹس نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’نوعمری اپنے انداز میں  گزارنے کے دوران کبھی کسی حادثے سے دوچار ہوا اور کبھی سخت مراحل سے گزرا مگر ان ناخوشگوار واقعات نے بھی بہت کچھ دیا، بہت کچھ سکھایا، بالخصوص کسی صدمہ سے جلد بحال ہونے کی عادت (لچک)، خود انحصاری اور قوت ِ فیصلہ، یہ ایسی خوبیاں  ہیں  جو والدین نے نہیں  سکھائیں ، میرے تجربات نے سکھائی ہیں ۔‘‘ 
 بل گیٹس کو افسوس ہے کہ آج کے بچے اور نوعمرچھ سے آٹھ گھنٹے اسکرین کے سامنے رہتے ہیں  چنانچہ اُن میں  بے چینی، افسردگی اور مریضانہ بے کیفی کے علاوہ خوردونوش میں  بے اعتدالی، خود کو نقصان پہنچانے کا رجحان اور رابطے کی حیران کن آسانی کے باوجود تنہائی پسندی اور اُکتاہٹ پائی جاتی ہے جس سے اُن کی نیند متاثر ہے، ذہن یکسو نہیں  ہے، مطالعہ صفر ہے، سماجی رابطوں  کا فقدان ہے اور ان کے پاس نہ تو اپنے لئے نہ ہی اپنوں  کیلئے وقت ہے۔
  بل گیٹس کی تائید کرتے ہوئے مَیں  اُن کی باتوں  میں  صرف اتنا جوڑنا چاہوں  گا کہ جناب عالی آپ نے تکلف اور مروت سے کام لیا اور ان عادات و اطوار کو بچوں  اور نوعمروں  سے منسوب کیا، ورنہ سچ یہ ہے کہ ہمارے یہاں  بڑے بھی ایسے ہی ہوگئے ہیں  ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK