سارا کھیل معاشی مفادات کا ہے۔ امریکہ چین کو زیر کرنا چاہتا ہے مگر چین کے تیور سے ڈرتا بھی ہے۔ ٹرمپ عجلت میں ہیں، کب تک رہیں گے کہا نہیں جاسکتا۔
EPAPER
Updated: April 20, 2025, 1:40 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
سارا کھیل معاشی مفادات کا ہے۔ امریکہ چین کو زیر کرنا چاہتا ہے مگر چین کے تیور سے ڈرتا بھی ہے۔ ٹرمپ عجلت میں ہیں، کب تک رہیں گے کہا نہیں جاسکتا۔
چین کی خطا یہ ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ، غالباً ۲۰۳۵ء تک اس کی معیشت دُنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائیگی۔ جس رفتار سے یہ ممالک پچھلے پندرہ سال میں آگے بڑھے ہیں ، اگر وہی رفتار باقی رہی تو چین کی جی ڈی پی امریکہ کی جی ڈی پی پر سبقت حاصل کرلے گی۔ امریکہ کیلئے یہ ناقابل قبول ہے۔ اس کا خمار کہ وہی دُنیا کی سب سے بڑی طاقت اور سب سے بڑی معیشت ہے، اُترا نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ اگر سپرپاور ہے تو اس کی معیشت کی وجہ سے، مگر حالات بتا رہے ہیں کہ آئندہ ایک دہائی میں ہم اسے پہلے نمبر سے دوسرے نمبر کی اکنامی بنتا دیکھ سکیں گے اور چین اسے مات دے دے گا۔ ایسا ہوتا دیکھنے کے سبب ہی ڈونالڈ ٹرمپ چین سے ناراض ہیں اور اس کے خلاف اتنا بھاری ٹیرف لگا دیا ہے کہ اب تک کی تاریخ میں اتنا ٹیرف کبھی نہیں تھا۔ جسے ہم ’’مغرب‘‘ کہتے ہیں وہ یورپ اور اس کی نوآبادیات پر مشتمل ہے یعنی شمالی امریکہ، آسٹریلیا اور اسرائیل، ان ملکوں کو یاد نہیں کہ کوئی ملک ایسا ہے جسے اُنہوں نے نوآبادی کے طور پر استعمال نہ کیا ہو، وہاں حکومت نہ کی ہو۔ ہرچند کہ اب نوآبادیاں ختم ہوگئی ہیں اور الگ الگ ملکوں کی اپنی حکومتیں ہیں مگر مغرب اب بھی حکمرانی کے زعم سے باہر نہیں آیا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ باقی ماندہ دُنیا اب بھی غلام ہے، نوآبادی ہے اور اس پر حکمرانی اس کا فرض ہے مگر نوآبادیاتی نظام ختم ہوچکا ہے تو اب کیا کریں ؟ اس سوال کا اُن کے پاس جواب یہ ہے کہ ہمارے پاس ادارے تو ہیں مثلاً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) عالمی بینک، جی سیون جیسے گروپ وغیرہ، تو ہم ان کے ذریعہ اپنی حکمرانی کو یقینی بنائیں گے۔
۱۸؍ ویں صدی میں دو سب سے بڑی معیشتیں چین اور ہندوستان تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ مشینوں کا دور نہیں تھا۔ لوگ محنت کرتے تھے اور اپنی روزی کماتے تھے۔ زراعت پر انحصار زیادہ تھا۔چونکہ آبادی زیادہ تھی اس لئے محنت کرنے والے ہاتھ زیادہ تھے اور پیداوار کو یقینی بنانے کی قوت تھی۔صنعتی انقلاب نے صورت حال تبدیل کردی۔ اب محنت ہاتھوں سے زیادہ مشینوں کی مرہون منت ہوگئی۔ ۱۸۰۰ء کے دور سے لے کر آج تک مغرب ہی تکنالوجی کا مردِ میدان ثابت ہوا۔ مگر، اس میدان میں چین کی پیش رفتیں صورت حال کو ایک بار پھر بدلنے کی جانب رواں دواں ہے۔ سٹی گروپ نے جنوری ۲۳ء میں ایک دستاویز جاری کی تھی جس کا عنوان تھا: ’’چین کی جی ڈی پی کب امریکہ کی جی ڈی پی پر سبقت لے جائیگی اور اس کا مفہوم کیا ہوگا؟‘‘۔ اس دستاویز کے اخیر میں لکھا تھا: ’’بہت سے معاملات کو پیش نظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ جلد ہی چین آگے ہوگا، ممکن ہے ۲۰۳۰ء تک ایسا ہو، یا ممکن ہے دہائی کے وسط تک‘‘ یعنی ۲۰۳۵ء تک۔
جب یہ ہوگا یعنی چین کو امریکہ پر سبقت حاصل ہوجائیگی تب معاشی حالات ہی نہیں بدلیں گے، سیاسی حالات میں بھی غیر معمولی تغیر ہوگا۔ اتنا ہی نہیں ، بہت سے دیگر معاملات میں بھی مثلاً خلائی تحقیق، کھیلوں کا انعقاد وغیرہ میں بھی جس کی معیشت زیادہ توانا ہوگی اُس کا حصہ زیادہ ہوگا۔ اگر کسی کو ایسا لگتا ہو کہ امریکہ بہرحال امریکہ ہے جو چین کی پیش رفت پر اثر انداز ہوسکتا ہے تو اُسے جان لینا چاہئے کہ جیسے جیسے چین کی معیشت توانا ہورہی ہے اور آگے جارہی ہے ویسے ویسے اس کا اثرورسوخ بھی بڑھ رہا ہے۔ جی ہاں ، اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس کے ثبوت کے طور پر ملاحظہ کیجئے کہ چین کی فوج کے جتنے بحری جہاز ہیں اُتنے امریکہ کے نہیں ہیں ، چین نے اپنا خلائی اسٹیشن قائم کیا ہے جسے وہ آزادانہ طور پر چلاتا ہے جبکہ امریکہ اور روس کا مشترکہ خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) ہے۔ چین (اور ہانگ کانگ) نے پیرس اولمپک میں گزشتہ سال امریکہ (۴۰) سے زیادہ گولڈ میڈل (۴۲) حاصل کئے۔ وہ چین ہی ہے جس نے دُنیا کا سب سے بڑا انفراسٹرکچر پروجیکٹ جاری کیا جسے بیلٹ اینڈ روڈ اِنی شیئیٹیو نام دیا گیا ہے۔ دُنیا کے جتنے ملکوں سے چین کے تجارتی تعلقات ہیں ، امریکہ کے نہیں ہیں ۔ چین کے ۱۲۰؍ ملکو ں سے تجارتی تعلقات ہیں ، امریکہ کے ۷۰؍ ملکوں سے ہیں ۔ کئی داخلی رپورٹوں میں وہی ’اندیشہ‘ بیان کیا جارہا ہے جو سٹی گروپ کی متذکرہ بالا رپورٹ میں بیان کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدور چین کو روکنے کے چکر میں رہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ کیا گیا کہ تائیوان میں بننے والے سیمی کنڈکٹروں تک اس کی رسائی کو روکنے کی کوشش کی گئی تاکہ مصنوعی ذہانت میں امریکہ کی بالادستی پر آنچ نہ آئے۔ مگر اس کا کوئی خاص اثر چین پر نہیں پڑا۔ اس نے ’’ڈیپ سیک‘‘ کا اعلان کردیا اور امریکہ سے ایک قدم آگے جاکر اسے مفت کردیا جبکہ امریکہ اس پروگرام پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا تھا۔ اسی طرح، ۲۰۱۹ء میں مغرب نے عالمی بازاروں اور ہارڈ ویئر تک ہوائی کی رسائی کو روکا مگر اس نے مینوفیکچرنگ کو اپنا نصب العین بنالیا اور اب خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سیمی کنڈکٹروں کے میدان کے دو شہسواروں کے برابر آنے کی طاقت کا حامل ہوگیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تائیوان کی ٹی ایس ایم سی اور ڈچ فرم اے ایس ایم ایل نہایت ترقی یافتہ چپ بنانے میں کایمیاب ہیں ۔ با اسے انڈسٹریل ڈیزائن اور مینوفیکچرنگ کی ضرورت ہے، جس میں چین کی مہارت جگ ظاہر ہے۔ ایسے میں اگر ان کا دبدبہ قائم ہوجائے تو ہمیں حیرت میں نہیں پڑنا چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے : غیروں سے شکایت نہیں، اپنوں سے گلہ ہے
ٹیرف کی جنگ کے ذریعہ چین کو روکنے کی ایک اور کوشش کی جارہی ہے ۔ اگر امریکہ کو اس جنگ میں ناکامی وئی تو بہت ممکن ہے کہ امریکہ کو چین کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کی ضرورت پیش آئے۔ امریکہ میں بہت سے لوگ غیر سنجیدہ انداز ہی میں سہی، اس بابت گفتگو کرنے لگے ہیں ۔ ویسے چین پر مبالغہ آمیز ٹیرف لگا کر امریکہ نے خود اپنا نقصان بھی کیا ہے۔ وہ اب تک جو کچھ بھی چین سے درآمد کرتا تھا، اُن تمام چیزوں کو خود تیار کرنا پڑے گا۔ اگر نہیں تو اس کے صارفین متاثر ہوں گے۔ یہ سب محض اس لئے ہورہا ہے کہ ایک بڑی طاقت دوسرے کو بڑا ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی۔