Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

......’’اَور درویش کی صدا کیا ہے!‘‘

Updated: March 22, 2025, 1:17 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

معاشرہ کا معیار کوئی باہر سے آکر طے نہیں کرتا، معاشرہ کے لوگ ہی کرتے ہیں چنانچہ دور حاضر میں اگر معاشرہ اپنا معیار کھو چکا ہے تو اس کیلئے کوئی دوسرا نہیں، معاشرہ کے لوگ ہی ذمہ دار ہیں، اس سے بڑا ستم یہ کہ اُنہیں اپنی ذمہ داری کا احساس تک نہیں ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

فیروز اللغات میں  لفظ ’’سائل‘‘ کے کئی معنی درج ہیں  مثلاً سوال کرنے والا، پوچھنے والا، چاہنے والا، طالب، جاری ہونے والا، عرضی دینے والا، اُمیدوار اور فقیر یا بھکاری۔ مگر عام طور پر اس لفظ کو فقیریا کشکول بردار کے معنی میں  سمجھا جاتا ہے۔ یہ الفاظ (فقیر، کشکول بردار) لکھنے، بولنے اور سننے میں  جتنے بھلے لگتے ہیں  اُتنے ہی بھلے وہ لوگ ہوتے تھے جو اگلے وقتوں  میں  دَر دَر صدا دیتے تھے۔ اپنی وضع قطع کے سبب دُور سے پہچانے جانے والے ان لوگوں  کو اگر آپ دیکھ نہ رہے ہوں  تب بھی اُن کی آواز سے پہچاننا مشکل نہیں  ہوتا تھا۔ کیا شان بے نیازی تھی صاحب اُن میں  کہ کچھ مل گیا تب بھی خوش اور نہ ملا تب بھی خوش۔ غالب جیسا عظیم المرتبہ شاعر بھی اُن کی بے نیازی سے غیر متاثر نہیں  رہا، اُس نے کہا:
ہاں  بھلا کر ترا بھلا ہوگا =اور درویش کی صدا کیا ہے
  وقت بدلنے کے ساتھ بہت کچھ بدل ہی رہا تھا کہ وقت کی تیز رفتاری نے تغیراتِ زمانہ کو بھی تیز تر کردیا۔ آپ دیکھتے ہوں  گے،  اب فقیر فقیروں  جیسے نہیں  رہ گئے۔ اور فقیروں  سے کیا گلہ اچھے خاصے پڑھے لکھوں  میں  بھی شائستہ گفتاری باقی نہیں  رہ گئی۔ اُس دَور کے فقیر نہ صرف شائستہ بلکہ علمی و ادبی رجحان رکھتے تھے۔براہِ راست سوال اُن کا شیوہ نہیں  تھا۔ وہ آتے، آپ کے در وازے کے سامنے ٹھہرتے، بعض اوقات ٹھہرتے بھی نہیں  تھے بلکہ کسی شعر، رُباعی یا نظم کے ذریعہ اپنی آمد کا اعلان کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔ اگر آپ کو ضرورت ہو تو اُنہیں  آواز دے کر روک لیں  اور اُن کے کشکول میں  کچھ ڈال دیں  ورنہ وہ تو یہ جا وہ جا۔ فقیر کا یہی طور ہوتا ہے اور اُسی کو فقیر کہا جاسکتا ہے جو لالچ میں  نہ پڑے، میرؔ نے فقیروں  کی اسی بے نیازی کو وسیع تر تناظر میں  اس طرح موضوع بنایا تھا: 
فقیرانہ آئے صدا کر چکے =میاں  خوش رہو ہم دُعا کرچلے
 فقیروں  کی بے نیازی کا اندازہ ’’جو دے اُس کا بھی بھلا، نہ دے اُس کا بھی بھلا‘‘ یا ’’کر بھلا سو ہو بھلا، اَنت بھلے کا بھلا‘‘جیسے اُن کے فقروں  سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ آپ، آج کے مانگنے والوں  کو دیکھتے ہوں  گے کہ آپ بار بار انکا رکریں  وہ مسلسل اصرار کرتے ہیں  حتیٰ کہ آپ کو اپنی جگہ سے ہٹ جانا پڑتا ہے اور اگر گھر میں  ہیں  تو دروازہ بند کرنے ہی میں  بھلائی نظآر آتی ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں  جو کچھ نہ دینے پر منہ ہی منہ میں  بڑبڑاتے اور اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں  یا صرف روپے طلب کرتے ہیں ، روٹی یا غذا دیجئے تو تحقیر آمیز انداز میں  انکار کردیتے ہیں ۔ اِس مضمون کا موضوع نئے دور کے فقیرنہیں  ہے جنہیں  فقیر کہنا فقیروں  کی توہین ہے اس لئے آئیے اصل موضوع کی طرف کہ اگلے وقتوں  کے فقیراپنی شانِ بے نیازی کے سبب ہی نہیں ، علم دوستی اور قدردانیٔ سخن کے سبب بھی پہچانے جاتے تھے۔ عالم یہ تھا کہ روزانہ یا آئے دن اُن کی آواز سننے والے گھر کے بچوں  کو بھی چند عمدہ اچھے اشعار بآسانی یاد ہوجاتے تھے جو وہ پڑھتے تھے۔ بعض کو ’’شکوہ‘‘ یا ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے چند بند تو یاد رہتے تھے تو دیگر کو مشہور اشعار مثلاً ’’آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کیلئے‘‘ (آغا حشر کاشمیری)۔ لوگوں  کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے تھے مگر اُنہوں  نے اشعار کو اپنی پہچان کا ذریعہ بنایا، کیا اسے علم دوستی نہیں  کہا جائیگا؟
 یقیناً یہ اُن کی علم دوستی تھی مگر اس سے ہٹ کر سوچا جائے تو ایک اور وجہ سمجھ میں  آتی ہے۔ وہ یہ کہ اُس دور کا معاشرہ بھی زبان و ادب کا قدردان تھا۔لوگ ایسی ویسی یا تہذیب سے گری ہوئی بات سننا پسند نہیں  کرتے تھے بلکہ اس سے قبل کی منزل یہ تھی کہ کسی کو ایسی ویسی بات کہنے کا حوصلہ بھی نہیں  ہوتا تھا۔ نشے میں  جھومتا ہوا کوئی شرابی راہ سے گزر رہا ہوتا اور کسی بزرگ کو دیکھ لیتا تو اُس پر گھڑوں  پانی پڑ جاتا تھا یا اس کا نشہ ہرن ہوجاتا تھا۔ا س معیار کے معاشرہ میں  کسی ایسے شخص کو جو ہوش میں  ہو، گستاخی یا بے ادبی کا یارا کیسے ہوسکتا تھا۔ یاد کیجئے اُس دور کے ناپسندیدہ الفاظ جن کے ذریعہ کسی خرد کو ڈانٹا جاتا تھا وہ بھی کتنے عمدہ تھے اور سننے میں  کتنے اچھے لگتے تھے۔ کم بخت، گستاخ، بے ادب، احمق۔ ایسا لگتا ہے ان الفاظ کو معاشرتی ذخیرۂ الفاظ سے حذف کردیا گیا ہے یا ان کے بولنے پر پابندی عائد ہے جبکہ واقعہ ہے کہ یہ الفاظ اتنے بھلے معلوم ہوتے تھے کہ آج بھی ایسا لگتا ہے کوئی بزرگ، بے ادب کہے اور ہم سنیں ، گستاخ کہے اور ہم سنیں ، احمق کہے اور ہم سنیں  اور پھر غالب کو یاد کریں  کہ ’’کتنے شیریں  ہیں  تیرے لب کہ رقیب، گالیاں  کھا کے بے مزا نہ ہوا‘‘۔  

یہ بھی پڑھئے: کیا یہ مودی جی کی سفارتی حکمت عملی ہے؟

 معاشرہ کی زبوں  حالی پر گفتگو کرنے والے کسی بھی شخص کو دیکھ لیجئے وہ معاشرہ ہی کو بُرا بھلا کہتا ہے، یہ نہیں  سوچتا کہ افراد سے گھر بنتا ہے، گھروں  سے محلہ اور محلوں  سے وہ مجموعی زندگی تشکیل پاتی ہے جو معاشرہ کہلاتی ہے اور جسے انگریزی میں  سوسائٹی کہتے ہیں ۔ جب تک فرد اپنی اصلاح نہیں  کرے گا، گھر اور خاندان کی اصلاح نہیں  ہوگی اور جب تک گھر اور خاندان کے طور طریقے درست نہیں  ہوں  گے معاشرے کے سدھرنے اور سنورنے کی صورت پیدا نہیں  ہوسکتی۔جب فرد ہی غافل ہو، اپنی تاریخ کو فراموش کر چکا ہو، اسلاف کے طور طریقوں  سے ناآشنا ہو اور ایک معیاری معاشرہ کی تشکیل کی ضرورت اور اُس میں  اپنی شرکت اور حصہ داری کو محسوس نہ کرتا ہو تو آپ زندگی بھر معاشرہ میں  بُرائیاں  دیکھتے رہیں  گے اور اُن کی نشاندہی کرتے رہیں  گے، کڑھتے رہیں  گے مگر کچھ نہیں  ہوگا، ایک شمع تک روشن نہیں  ہوگی، ایک لفظ تک زندہ نہیں  ہوگا اور ایک قدر تک کا احیاء نہیں  ہوگا۔ 
 کیا تو وہ دَور تھا جب سائل اور فقیر بھی با ادب ہوا کرتے تھے اور کیا تو یہ دور ہے جب ادب سے کچھ لینا دینا نہیں  رہ گیا ہے، زندگی خوب کماؤ، خو ب کھاؤ، عیش و عشرت کے شب و روز گزارو، جو مل سکتا ہے فوراً حاصل کرلو اور جس کے حصول میں  دشواری ہے اُس کی اِس حد تک تمنا کرو کہ اچھے خاصے شب و روز اجیرن ہوجائیں  یا زندگی سراپا ای ایم آئی (بینک کے قرض کی ماہانہ قسط) بن جائے۔ صبر کو کسی عجائب گھر میں  اور قناعت کو کسی پرانے طاق میں  رکھ چھوڑا گیا ہے کہ شاید کبھی کام آئے۔ اس کی اہم وجہ مطالعہ سے اجتناب ہے۔ آدمی پڑھتا پڑھاتا رہے تو اندر سے جلد کھوکھلا نہیں  ہوتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK