Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

کیا یہ مودی جی کی سفارتی حکمت عملی ہے؟

Updated: March 19, 2025, 1:38 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

اپنے حالیہ پوڈکاسٹ میں مودی جی نے امریکی صدر کی دل کھول کر تعریف کی ہے ۔ انہوں نے ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے اور ان کے ممکنہ عتاب سے اپنے ملک کو محفوظ رکھنے کی جو کوشش کی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائیگا کہ کتنی کامیاب ہوتی ہے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ایسے وقت میں  جب امریکہ کے اتحادی ممالک کے سربراہان ڈونالڈ ٹرمپ کے مخاصمانہ رویے اور جارحانہ طرز عمل کی وجہ سے ان سے بدگمان ہوتے جارہے ہیں ، وزیر اعظم نریندر مودی کو امریکی صدرمیں  خوبیاں  ہی خوبیاں  نظر آرہی ہیں ۔ مودی جی نے ایک امریکی پوڈکاسٹر Lex Fridman کو دیئے گئے اپنے طویل انٹرویو میں ’’ ڈئیر فرینڈ‘‘ ٹرمپ کی دل کھول کر تعریف کی۔ مودی جی نے فرمایا کہ ٹرمپ ایک نڈر لیڈرہیں  جو اپنے فیصلے خود کرتے ہیں  اور ان کے نتائج کی پروا نہیں  کرتے ۔ مودی جی کی نظر میں  ٹرمپ بہت بڑے قوم پرست ہیں  جن کو امریکہ اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہے۔مودی جی نے بھی بالواسطہ طور پر ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے: وہ خود بھی ٹرمپ جیسے ہی ہیں ۔
  جیسے ٹرمپ ’’ امریکہ فرسٹ‘‘ کے علم بردار ہیں  ویسے ہی مودی جی بھی ’’ نیشن فرسٹ‘‘ میں  یقین رکھتے ہیں ۔ ٹرمپ کی طرح انہوں  نے بھی اپنی زندگی قوم کے لئے وقف کردی ہے۔مودی جی نے دعویٰ کیا کہ ان کی ٹرمپ کے ساتھ گہری دوستی کا راز یہ ہے کہ دونوں  قوم پرستانہ جذبے سے سرشار ہیں ۔مودی جی نے پچھلے ماہ امریکہ کے دورہ پر یہ انکشاف کیا تھا کہ جیسے ٹرمپ امریکہ کو عظیم بنانے کے مشن پر عمل پیرا ہیں  ویسے ہی وہ ہندوستان کو عظیم بنانے میں  مصروف ہیں ۔ ٹرمپ کے مشہور نعرہ MAGA کی طرز پر مودی جی نے وائٹ ہاؤس میں  اپنا نعرہMIGA بھی متعارف کرایا۔
 پچھلے گیارہ برسوں  میں  وہائٹ ہاؤس میں  چار بار صدربدلے جا چکے ہیں  لیکن نئی دہلی میں  مودی جی اسی آن بان اور شان سے راج سنگھاسن پر براجمان ہیں  جس آن بان اور شان سے ۲۰۱۴ء میں  وہ پہلی بار اس پر فائز ہوئے تھے۔ ٹرمپ سے مودی جی کا پرانا یارانہ ہے۔ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں  ہی دونوں  لیڈران ایک دوسرے کے کافی قریب آگئے تھے۔ ستمبر ۲۰۱۹ء میں  مودی جی کے اعزاز میں  ٹیکساس کے ہیوسٹن شہر میں  ایک بہت بڑی ریلی منعقد کی گئی جس میں  پچاس ہزار سے زیادہ لوگ شامل ہوئے تھے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے’’ ہاؤڈی مودی‘‘ نام کی اس ریلی میں  خصوصی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی اور سامعین کے ساتھ بیٹھ کر صبر و سکون کے ساتھ مودی جی کی تقریر سنی۔ اسی ریلی میں  مودی جی نے’’ اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ امریکہ میں  مودی کے اعزاز میں  ریلی ایک فٹبال گراؤنڈ میں  ہوئی تھی۔مودی جی نے چند ماہ بعد ہی ٹرمپ کے اعزاز میں  احمد آباد کے کرکٹ اسٹیڈیم میں  اس سے کئی گنا بڑی ریلی(نمستے ٹرمپ) کا اہتمام کروادیا۔اس ریلی میں  سوا لاکھ سے زیادہ لوگوں  نے شرکت کی۔ احمد آباد کی ریلی میں  ٹرمپ نے مودی جی کی بے حد تعریف کی مودی جی کے ساتھ اپنی دوستی پر برملا فخر کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ وہ’’لاثانی اور ہر دلعزیز لیڈر‘‘ ہیں ۔
 اپنے حالیہ طویل پوڈکاسٹ انٹرویو میں  مودی جی نے یہ دعویٰ کیا کہ ٹرمپ اپنے دوسرے ٹرم میں  زیادہ تیاریوں  کے ساتھ لوٹے ہیں  اور اپنے اہداف کے حصول کیلئے ان کے ذہن میں  روڈ میپ بالکل واضح ہے۔ امریکی سیاسی پنڈتوں  کا خیال ہے کہ مودی اور ٹرمپ کی اسلئے گاڑھی چھنتی ہے کیونکہ دونوں  میں  بہت سی باتیں  مشترک ہیں ۔ دونوں  انتہائی دائیں  بازو کے لیڈر ہیں ، دونوں  عوام میں  بے حد مقبول ہیں ، دونوں  اندھی قوم پرستی یا شدید وطن پرستی  (hyper-nationalism) کے علمبردار ہیں ، دونوں  غیر قانونی تارکین وطن کو اپنے ملک کی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ قراردیتے ہیں ، دونوں  خود کو مضبوط لیڈر کے طور پر پیش کرتے ہیں  اور دونوں  ’’ملک کو عظیم بنانے‘‘کے دلفریب وعدے کے ذریعہ اقتدار میں  آئے ہیں ۔ 
 مودی جی اور ٹرمپ دونوں  دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتوں  کے سربراہ ہیں  لیکن ستم ظریفی یہ ہے دونوں  کا طرز عمل، طریقۂ قیادت اور انداز گفتار آمروں  والالگتا ہے۔ دونوں  اصول و ضوابط کی پروا نہیں  کرتے ہیں  اور دونوں  کو اختلاف رائے شدید ناپسند ہے۔دونوں  اپنے اختیارات کو مزید مستحکم بنانے کے لئے جمہوری اور آئینی اداروں  کو نحیف و نزار بناتے جارہے ہیں ۔ دونوں  میں  خود پسندی اور خودپرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہے  اوردونوں  کو تنقید گوارا نہیں  ہے۔ نظریاتی اور ثقافتی طورپر بھی دونوں  میں  کافی مماثلتیں  ہیں ۔ دونوں  کو سیکولر جمہوری نظام کے بنیادی اصولوں  مثلاً مساوات، یکجہتی، اتحاد، ہم آہنگی اورآزادی اظہار رائے سے زیادہ رغبت نہیں  ہے۔ دونوں  تقسیم کی سیاست کے ذریعہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں  یقین رکھتے ہیں ۔ ٹرمپ نے اگر امریکہ میں  سفید فام نسل پرستانہ پالیسی کو وہائٹ ہاؤس پہنچنے کا ذریعہ بنایا تو مودی جی شدت پسند ہندوتواکے ایجنڈہ کے سہارے اقتدار تک پہنچے۔
  مودی جی کے انٹرویو کو ٹرمپ نے بڑے غور سے دیکھا اور اسے اپنے ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پرشیئر بھی کیا۔ اپنے متعلق ہندوستانی وزیر اعظم کے توصیفی کلمات سن کر نرگسیت کا شکار ٹرمپ پھولے نہیں  سمارہے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی کا تیر نشانے پر لگتا ہے یا نہیں ۔ٹرمپ کو دوسری اننگ شروع کئے ہوئے بمشکل دو ماہ ہوئے ہیں  لیکن اس مختصر عرصے میں  انہوں  نے پورے اقوام عالم میں  کھلبلی مچادی ہے۔ ان کے تابڑ توڑ یکطرفہ پالیسی فیصلوں  اور جارحانہ بیانات سے خواہ وہ ٹیرف عائد کرنے کے متعلق ہوں  یا پوتن کی شرائط پر یوکرین میں  جنگ بندی کروانے کے؛ خواہ کینیڈا کو امریکہ میں  ضم کرنے کے متعلق ہوں  یا گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کے، امریکہ کے دشمن ہی نہیں  دوست ممالک بھی حواس باختہ ہیں ۔ٹرمپ نے جب اضافی ٹیرف کا اعلان کیا تو میکسکو، کینیڈا، چین اور یورپی ممالک نے بھی جوابی کاروائی کی دھمکی دے ڈالی جس کے نتیجے میں  اس وقت تجارتی جنگ چھڑگئی ہے۔

یہ بھی پڑھئے : کیا مودی نڈر بھی ہیں اور ڈرے ہوئے بھی؟

 ان ممالک کے برعکس ہندوستان نے ٹھنڈے دماغ سے کام لیا۔ نئی دہلی نے ٹرمپ کے سخت اقدم پر سخت ردعمل کے اظہار سے گریز کیا۔ ٹرمپ نے ہندوستان کے خلاف بھی بھاری اضافی ٹیرف لگانے کی دھمکی دی ہے۔ علاوہ ازیں  غیر قانونی تارکین وطن کو ڈیپورٹ کرنے کے ٹرمپ کے اقدام سے ہندوستان کو بھی مصائب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ بغیر مناسب دستاویزات کے امریکہ میں  رہائش پذیر ہندوستانی باشندوں  کی تعداد لاکھوں  میں  ہے۔مودی جی کو بخوبی علم ہے کہ ہر خود پرست شخص کی طرح ٹرمپ بھی اپنی خوشامد اور تعریف سے خوش ہوتے ہیں ۔مودی جی نے ٹرمپ کی ستائش کرکے امریکی صدر کی خوشنودی حاصل کرنے اور ان کے ممکنہ عتاب سے اپنے ملک کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان کی کوشش کتنی کامیاب ہوتی ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK