ڈونالڈ ٹرمپ بین الاقوامی تجارت میںخسارہ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کررہے ہیں مگر اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خسارہ اصل میں امریکہ کے بجٹ خسارہ کی عکاسی کرتا ہے،امریکہ اگر اپنے بجٹ کو متوازن کرلے تو یہ خسارہ اتنا زیادہ نہیں رہ جائےگا
EPAPER
Updated: March 09, 2025, 2:40 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
ڈونالڈ ٹرمپ بین الاقوامی تجارت میںخسارہ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کررہے ہیں مگر اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خسارہ اصل میں امریکہ کے بجٹ خسارہ کی عکاسی کرتا ہے،امریکہ اگر اپنے بجٹ کو متوازن کرلے تو یہ خسارہ اتنا زیادہ نہیں رہ جائےگا
کچھ مسائل ایسے ہیں جنہیں پوری انسانیت نے مل کر پیدا کیا ہے ،اس لئے ان کو مل کر ہی حل کرنا ہوگا۔ کچھ مسائل علاقائی سطح پر پیدا ہوتے ہیں ۔ موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا مسئلہ ہے جسے پوری دنیا کو مل کر حل کرنا ہوگا۔ اگر نصف دنیا ماحولیات کیلئے نقصاندہ اخراجات کم کردے مگر بقیہ نصف دنیا میں یہ اخراج بڑھ جاتا ہے، تو موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کرہ ٔ ارض کا ماحول اور سمندر انسانیت کو آپس میں جوڑتے ہیں ۔ دوسری طرف مقامی مسائل عام طور پر طاقت کے عدم توازن اورحالات کو بگاڑنے کی کوشش کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال یوکرین اور دوسری غزہ ہے ۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ۲۰۲۵ء کی اس دنیا میں بھی نسلی امتیاز، نسلی تطہیر بلکہ نسل کشی تک کیوں قابل قبول ہے۔ان کے علاوہ کچھ مسائل ایسے ہیں جنہیں شاید مسئلہ سمجھا ہی نہ جائےلیکن سزا کی طرح تھوپے گئے ان کے حل آج پوری دنیا کو پریشان کررہے ہیں ۔ امریکی تجارتی خسارہ کا مسئلہ اوراسے ٹیرف کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش اس کی مثال ہے۔ امریکی صدر کے مطابق ٹیرف کا نفاذ اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ نظام امریکہ کے ساتھ ناانصافی پر مبنی ہے۔ان کے الفاظ میں دیگر ممالک ’’ہمیں لوٹ رہے ہیں ۔‘‘کیا واقعتاً ایسا ہی ہے؟اگراُنہیں لوٹا جارہا ہوتا تو انہیں نقصان بھی پہنچا ہوتا۔
ورلڈ بینک کے مطابق دنیا کی اوسط فی کس جی ڈی پی ۱۳؍ ہزار ڈالر ہے۔ زیادہ تر ممالک اس سے کافی نیچے ہیں ۔ ان میں ہندوستان (۲۵۰۰؍ ڈالر)، انڈونیشیا (۴۸۰۰؍ ڈالر)، ایران (۴۴۰۰؍ ڈالر)، عراق(۵۵۰۰؍ ڈالر)، تھائی لینڈ(۷۱۰۰؍ ڈالر) اور ویتنام (۴۲۰۰؍ ڈالر) شامل ہیں ۔ صحرائے افریقہ کے ممالک میں جن کی آبادی ہندوستان سے کچھ ہی کم ہے، فی کس جی ڈی پی ۱۶۰۰؍ ڈالرہے۔ ہمارے ساتھی برکس ممالک میں برازیل کی فی کس جی ڈی پی ۱۰؍ ہزار ۲۰۰؍ ڈالر، روس کی ۱۳؍ ہزار۸۰۰؍ ڈالر، جنوبی افریقہ کی ۶؍ ہزار ڈالرا ور چین کی ۱۲؍ ہزار ۶۰۰؍ ہے۔ کچھ ہی ممالک ہیں جن کی فی کس جی ڈی پی عالمی شرح سے خاطرخواہ زائد ہے۔ان میں یورو زون کاعلاقہ قابل ذکر ہے جس کی فی کس جی ڈی پی ۴۵؍ ہزار ڈالر ہے۔ یہاں ( یورو زون میں ) جرمنی کی فی کس جی ڈی پی۵۴؍ ہزار ڈالر، فرانس کی ۴۴؍ ہزار ڈالرا ور اٹلی کی ۳۹؍ ہزار ہے۔ اس معاملے میں برطانیہ فرانس کے ہم پلہ ہے۔
امریکہ کی فی کس جی ڈی پی ۸۲؍ہزار ڈالر ہے۔ یعنی عالمی اوسط سے ۶؍ گنا اور ہندوستان سے ۳۰؍ گنا زائد۔ اس طرح امریکہ بڑے ملکوں میں سب سے امیر ملک ہے۔ اس کی اسی پوزیشن نے ڈالر کو عالمی کرنسی بنا دیا ہے ، یعنی دنیا بھر میں زیادہ تر تجارت امریکی ڈالر میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ دنیا بھر کے ہنر مند افراد کی سب سے پُرکشش منزل بھی ہے ۔ اس کی آبادی میں اضافہ کو تقویت ہجرت کرکے وہاں پہنچنے والوں سے ملتی ہے۔اس کے کارپوریٹ اور تعلیمی شعبوں میں ممتاز حیثیت کے حامل افراد میں بیرون ِ ملک میں پیدا ہونے والوں کی خاصی تعداد ہے۔ دنیا بھر کے ہنرمند اور ذہین افراد کے یہاں پہنچ جانے کی وجہ سے اس ملک کا مستقبل محفوظ ہے۔ ۲۰۰۴ء کے بعد سے امریکہ کی فی کس جی ڈی پی دوگنی ہو چکی ہے جو اس لئےحیرت انگیز ہے کہ یہ پہلے ہی کافی بلندی پر تھی ۔ یورپ یا یوروزون کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے جو ۲۰۰۴ء سے جمود کا شکار ہے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ میں عدم مساوات کا مسئلہ اسی طرح موجودہے جس طرح دوسری جگہوں پر ہے۔لیکن یہ داخلی مسئلہ ہے جسے امریکہ کو خود اپنے اندرونی معاملات کو درست کرکے حل کرنا ہوگا، اس کااثر اُس دنیا پر نہیں ڈالنا چاہئے جواوسط امریکیوں سے بھی کہیں زیادہ غریب ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے ہمارے بارے میں کہا ہے کہ ’’ہندوستان بہت زیادہ ٹیرف لگاتا ہے، بہت ہی زیادہ۔ آپ ہندوستان کو کچھ بیچ ہی نہیں سکتے... بہرحال اب جبکہ وہ جوکچھ کررہے تھے اسے بے نقاب کیا جا رہا ہے تو وہ اسے (ٹیرف کو) بڑی حدتک کم کرنے پر راضی ہوگئے ہیں ۔ ‘‘آزادانہ تجارت کے تعلق سے کسی کی کوئی بھی رائے ہو، ہندوستان اور اس کی حکومت اگر اپنے عوام کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے اور اپنی معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش کرتی ہے توا س کیلئے اسے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ایسے ملک میں جہاں ایک ارب لوگ ضرورت سے زائد کوئی اضافی چیز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور ان کی کمائی صرف زندہ رہنے کیلئے ضروری اشیاء کی فراہمی کیلئے ہی بمشکل کافی ہوتی ہے، وہ ترقی یافتہ ممالک سے بھلا کیا خرید سکتے ہیں ؟
یہ بھی پڑھئے : ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں!
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ امریکہ کا تجارتی خسارہ دراصل اس کے بجٹ خسارے کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکی حکومت اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرتی ہے،اس لئے اسےقرض لینا پڑتا ہے۔ ۲۰۲۴ء میں یہ خسارہ۱ء۸؍ٹریلین ڈالر تھا۔ اس قرض لینے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں سرمایہ کا بہاؤ بڑھتا ہے جس سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ مزید مضبوط ہوتاہے۔ ڈالر کی یہ مضبوطی (یعنی اس کی زیادہ قیمت) امریکہ کیلئے برآمدکو مشکل بنادیتی ہے اور درآمدات آسان ہو جاتی ہیں ، یہی تجارتی خسارہ پر منتج ہوتا ہے۔ اگر امریکہ اپنے بجٹ کو متوازن اور قرضہ کم کرلے، تو’’دہرے خسارہ‘‘کی تھیوری کے مطابق اس کا تجارتی خسارہ اتنا زیادہ نہیں رہ جائےگا جتنا اس وقت ہے۔ مگر ایسا ہوگا نہیں ، خاص طور سے اس وقت تک جب تک کہ ٹرمپ اپنی موجودہ پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔ میکسیکو میں فی کس جی ڈی پی ۱۳؍ ہزار ۷۹۰؍ ڈالر ہے یعنی یہ عالمی شرح کے آس پاس ہی ہے۔ کنیڈا کی ۵۳؍ ہزار ڈالر یعنی امریکہ کی شرح سے ۳۰؍ ہزار ڈالر کم ہے۔ اس پس منظر میں یہ ثابت کرنا کہ یہ ممالک تجارت میں امریکہ کے ساتھ بددیانتی کر رہے ہیں ،آسان نہیں ہے۔ اس لئے یہ دعویٰ عجیب ہے کہ یہ ممالک امریکہ کو لوٹ رہے ہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ اعداد و شمار کچھ اور ہوتے۔بین الاقوامی بازار پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں وہ اضطرابی کیفیت نظر آتی ہے جو ایک طاقتور ملک کے ایک شخص نے جان بوجھ کر پیدا کی ہے۔