تربیت کا نظم ہر گھر میں ہونا چاہئے۔ موبائل جب سے آیا ہے اس نے بڑا ستم ڈھایا ہے۔ اس نے تربیت کی فکر تک ختم کردی ہے۔ لوگ یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ تربیت تعلیم سے زیادہ اہم ہے۔
EPAPER
Updated: October 12, 2024, 1:46 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
تربیت کا نظم ہر گھر میں ہونا چاہئے۔ موبائل جب سے آیا ہے اس نے بڑا ستم ڈھایا ہے۔ اس نے تربیت کی فکر تک ختم کردی ہے۔ لوگ یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ تربیت تعلیم سے زیادہ اہم ہے۔
گزشتہ دِنوں یہ خبر نظر سے گزری کہ ایڈن برگ کی ایک خاتون کو، جو ٹی وی کی میزبان رہ چکی ہیں ، مقامی عدالت نے ۲۷؍ ماہ جیل کی سزا سنائی کیونکہ اُس نے اپنی والدہ کے بینک کھاتے سے غیر معمولی رقم وقفے وقفے سے خرچ کی اور اپنے لئے بے شمار اشیاء خریدیں ، وہ بھی ایسے وقت میں جب اُس کی والدہ نسیان کا شکار تھیں ۔ خبر کے مطابق ہیلی میتھیو نے مجموعی طور پر ایک لاکھ ۲۰؍ ہزار پونڈ خرچ کئے۔ اس رقم کو ہندوستانی کرنسی میں تبدیل کیا جائے تو موجودہ شرح سے ایک کروڑ ۳۲؍ لاکھ روپے ہوتے ہیں ۔ ہیلی کے اِس عمل کو چوری قرار دیا گیا جو ستمبر ۲۰۱۹ء سے نومبر ۲۰۲۲ء کے درمیان کی گئی۔
اس میں شک نہیں کہ دورِ حاضر میں پیسوں کی قدروقیمت بالکل نہیں رہ گئی ہے اور جس نے خون پسینہ ایک کرکے پیسے نہیں کمائے وہ پیسے اُڑانے میں تکلف نہیں کرتا۔ وہ ’’مالِ مفت دل بے رحم‘‘ کی تصدیق کرتا ہے مگر کسی کے ہاتھ خزانہ لگ جائے تو کیا وہ پورے خزانے کو اپنی ذات پر اس طرح خرچ کرسکتا ہے کہ چند روز یا چند مہینوں میں خزانہ ختم ہوجائے؟
کل تک یہ حیران کن بات رہی ہوگی مگر آج کے زمانے میں بالکل نہیں ہے۔ اس کیلئے برطانیہ کی مثال سامنے رکھنے کی اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ ہندوستان میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ آن لائن فراڈ کرنے والے کیا کرتے ہیں ؟ وہ حاصل شدہ خطیر رقم کو اپنے بینک کھاتے میں جمع نہیں کرتے کہ وقتاً فوقتاً حسب ضرورت پیسے نکالتے رہیں گے۔ وہ اُس رقم سے ’’چار دن کی چاندنی ‘‘ کا بھرپور لطف اُٹھا کر پھر چوری کی دُنیا میں لوَٹ آتے ہیں اور اگر قانون کے ہاتھ اُن تک پہنچ گئے تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے چاندنی تک کو ترس جاتے ہیں ۔ اِس میں غور وفکر کی بات یہ ہے کہ زمانے نے اس قدر اسباب ِ زندگی مہیا کردیئے ہیں کہ پیسہ اُڑانا آسان ہوگیا ہے۔ بے شمار اسبابِ زندگی کی فراہمی نے خواہشات در خواہشات ایسی بے چینی اور بے قراری پیدا کردی ہے کہ انسانی زندگی بے سکونی کی بھینٹ چڑھنے لگی ہے۔ جو لوگ خوش و خرم زندگی گزارنے کے اہل ہیں وہ دوسروں کا سامان ِ تعیش دیکھ کر اس قدر للچاتے ہیں کہ اُس سامان کے حصول کی تگ و دَو میں اپنی خوشی و خرمی کو بیقرار کردینے والی خواہشات کے آگے رہن رکھ دیتے ہیں ۔ اُن کی قوت مزاحمت جیسے سلب ہوجاتی ہے۔ شاید اس لئے کہ بچپن سے لے کر بڑا ہونے تک جذبۂ مزاحمت اور صبرو تحمل کی جس طرح تربیت ہونی چاہئے، نہیں ہوتی۔ آج کل تو والدین بھی مزاحمت سے عاری رہتے ہیں ، اُن سے یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ بچوں کی مناسب تربیت کے ذریعہ اُنہیں بڑھتی ہوئی صارفیت کے چکرویوہ کی طرف نہیں دھکیلیں گے۔
جاپانی کمپنی ’’یوکلٹ‘‘ کے ایک سروے میں پایا گیا کہ ۶ا؍ سے ۲۹؍ سال کے برطانوی شہریوں میں ۸۹؍ فیصد ایسے ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ اُن کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ۱۶؍ سے ۲۹؍ سال کے افراد کو ہندوستان میں نوجوان کہا جاتا ہے۔ ان کی بابت عام رائے ہوتی ہے کہ ابھی بچے ہیں ، ان کے سامنے عمر پڑی ہے۔ اگر ان میں زندگی سے بے رغبتی کا یہ عالم ہے تو ان سے کیا اُمید وابستہ کی جاسکتی ہے اور یہ افراد سماج کیلئے کارآمد کیسے بن سکتے ہیں ؟
اچھی تربیت زندگی گزارنے کا سلیقہ عطا کرتی ہے جس کے سبب مفلس تونگردکھائی دیتا ہے، بھوکا شکم سیر نظر آتا ہے اور جو افسردہ و غمگین ہے، اُس پر خوش و خرم ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ تاریخ ِ انسانی نے ایسے دور دیکھے ہیں اور ہر دور میں ایسے لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے غربت کی قدر کی اور اَمارت کی تمنا کو گناہ تصور کیا۔ کتابوں کے مطالعہ سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں جب کوئی شخص کسی بزرگ، عالم، دانشور یا معلم سے ملتا تو التجا کرتا تھا کہ حضرت کوئی نصیحت فرمادیجئے۔ پھر وہ اُس نصیحت پر زندگی بھر کاربند رہتا اور دیکھتا کہ اُس کی زندگی میں کتنی روشنی ہوئی ہے۔ اسی لئے کل تک گھروں میں بڑوں کی باتیں اور بزرگوں کے قصے سنانے کا رواج تھا۔ وہ وقت گزاری کا عمل نہیں تھا، سیکھنے سکھانے کی ایسی روایت تھی جس کے ختم ہوجانے پر افسوس کیا ماتم کیا جانا چاہئے۔
ایک بزرگ کا قول مطالعہ سے گزرا۔ آپ نے فرمایا کہ اگلے وقتوں کے بزرگوں کی بات اس لئے زیادہ نافع تھی کہ وہ اپنے نفس کی نجات اور حق کی رضا کیلئے کلام کرتے تھے اور ہم (موجودہ لوگ) نفس کی عزت، دُنیا کی طلب اور خلقت کی قبولیت کیلئے گفتگو کرتے ہیں ۔ بزرگوں کے قصوں اور بڑوں کی باتوں کا اثر بچوں پر یہ ہوتا تھا کہ بعض باتیں اُن کے ذہن و دل پر نقش ہوجایا کرتی تھیں ۔ آپ نے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ ’’ہمارے ابا ّ کہتے تھے......‘‘ یا ’’امی نے ہمیشہ یہی سکھایا......‘‘ اب کوئی کہتا ہے ایسا؟ اس لئے نہیں کہتا امی ابا نے یہ اس ’’شغل‘‘ کو بے فیض سمجھ کر ترک کردیا ہے یہ سمجھے بغیر کہ اسی شغلِ بے فیض نے اپنے عہد پر احسان کرنے والے قیمتی افراد پیدا کئے جن کے واقعات اور اقوال آج بھی مشعل راہ ہیں اگر اُن کا مطالعہ کیا جائے اور مطالعہ کے بعد غور کیا جائے کہ اُن میں حکمت کے کیسے کیسے موتی پائے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ قول ملاحظہ کیجئے کہ ’’مہمان کو اِس طرح رکھنا چاہئے کہ اس کے آنے سے گرانی نہ ہو اور اس کے جانے سے شادمانی نہ ہو۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل فلسطین جنگ کا بڑھتا دائرہ
اس قول پر غور کیجئے، فوراً سمجھ میں نہیں آتا کہ اس میں کہا کیا گیا ہے۔ اس میں میزبانی کا ایک اُصول تو بیان کیا ہی گیا ہے، مہمان کو بھی تنبیہ ہے کہ اگر کسی کے گھر جاؤ تو اِس طرح رہو کہ میزبان پر بوجھ نہ بنو اور جب اُس کے گھر سے واپس آؤ تو وہ خوش نہ ہو کہ بوجھ سر سے اُتر گیا۔ دراصل گھروں کو تربیت گاہ بناکر والدین اپنے بچوں میں ایسی ایسی خوبیاں پیدا کرتے ہیں کہ آج کی انتہائی مادّہ پرست دُنیا بھی اُن کی قدر کئے بغیر نہیں رہتی مگر یہ نظم باقی نہ رہ جانے کا نتیجہ ہے کہ معاشرہ کے افراد میں الگ سے پہچانے جانے کی خو‘ بو‘ پیدا نہیں ہوتی اور وہ کسی پر کوئی نقش قائم کرنے یا کسی کو متاثر کرنے کی صفت سے عاری ہیں ۔ یاد کیجئے وہ وقت جب سلام کرنے کے انداز سے بچے کو پہچان لیا جاتاتھا کہ اس کی تربیت کس نہج پر ہوئی ہے۔