نیا سال آگیا اور آتے ہی اس نے جانا شروع کردیا۔ تین دِن گزر چکے، آج چوتھا دن ہے۔ ایک ایک کرکے دِن یوں ہی گزرتے جائینگے، پھر سال ختم ہوجائیگا اور ہم وقت کو روتے رہیں گےیہ جانے بغیر کہ وقت ہم سے کیا چاہتا ہے۔
EPAPER
Updated: January 04, 2025, 5:02 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
نیا سال آگیا اور آتے ہی اس نے جانا شروع کردیا۔ تین دِن گزر چکے، آج چوتھا دن ہے۔ ایک ایک کرکے دِن یوں ہی گزرتے جائینگے، پھر سال ختم ہوجائیگا اور ہم وقت کو روتے رہیں گےیہ جانے بغیر کہ وقت ہم سے کیا چاہتا ہے۔
نیا سال آیا نہیں تھا کہ تیزی سے پرانا ہونے لگا۔ آج اس کا چوتھا دن ہے، جلد ہی چالیسواں دن آجائیگا اور پھر بھاگتے دوڑتے لمحوں کو ٹھیک سے نہ دیکھ پانے کی تاسف آمیز کیفیت میں ۳۶۵؍ ویں دن کی آمد آمد ہوگی اور ہر سال کی طرح ایک بار پھر پرانے سال کی جگہ نیا سال لے لے گا۔ کلینڈر بدل جائے گا۔ سالہا سال سے یہی ہورہا ہے اور سالہا سال تک یہی ہوتا رہے گا۔ جو آج ہیں وہ کل نہیں ہوں گے اور جو کل ہوں گے پرسوں اُن کے نام کے آگے سوالیہ نشان لگ جائیگا۔ اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ پوری دُنیا بقاء کی جدوجہد میں بہت تیزی سے فنا کی طرف دوڑ رہی ہے کہ یہی اس کا مقدر ہے۔ وقت لمحہ لمحہ گزرتا رہتا ہے۔ ان لمحوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی کے نہیں ہوتے البتہ تب یادگار بن جاتے ہیں جب کہیں کوئی چراغ جلتا ہے، کوئی ہاتھ کسی کی مدد کیلئے بڑھتاہے، کوئی کسی کیلئے خوشگوار کلمات ادا کرتا ہے، کوئی کسی کو یاد کرتا ہے، کسی کو معاف کردیتا ہے، بُرے وقت میں صبر کی بے جان تلقین کے بجائے دل و جان سے دلدہی کرتا ہے، بچے والدین کی خدمت کرتے ہیں اور والدین بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر دونوں جہان کی کامیابی کی دُعا دیتے ہیں۔
اگر دیکھنے والی آنکھ سے سالِ گزشتہ کا کیلنڈر دیکھا جائے تو ایسے لمحوں کے نقوش صاف نظر آئینگے۔ یادگار لمحوں کے نقوش بھی یادگار بلکہ جاوداں ہوتے ہیں ۔ کیلنڈر ایسے ہی لمحوں میں زندہ رہتے ہیں اور یہی کسی گزرے ہوئے سال کی سب سے بڑی یافت ہوتی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنے لوگ سالِ گزشتہ کے یادگار لمحوں سے ترغیب پاکر نئے سال کے لمحوں کو یادگار بنانے کی فکر کرتے ہیں مگر یہ طے ہے کہ آدمی اُنہی لمحوں میں جیتا ہے جو اُس کے اندر جیتے ہیں شرط یہ ہے کہ وہ اُن لمحوں کو سنبھال کر رکھے اور اپنا وقت لمحوں کو یادگار بنانے میں صرف کرے۔ ایک نیکی وہ ہے جو ہوجاتی ہے۔ دوسری وہ ہے جو کی جاتی ہے۔ دونوں کو اپنے دل کی میزان پر تولئے، دوسری نیکی کا وزن زیادہ محسوس ہوگا۔
سال کے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک اور پھر دوسرے سال کے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک انسان کی تگ و دو کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ بھرپور زندگی جینے کے قابل ہوجائے۔ بھرپور زندگی کی خواہش میں وہ اپنی زندگی کو جس طرح جیتا ہے اُسے ’’نصف بھرپور‘‘ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کیوں نہ ہو جب آج کے اکثر لوگ جانتے ہی نہیں کہ بھرپور زندگی کیا ہوتی ہے۔ یہ اتنی بڑی مشکل نہیں ہے جتنی یہ کہ کوئی بتانے والا بھی نہیں ہے کہ بھرپور زندگی کیا ہے۔ ویسے یہ دَور تو خوشی کی تعریف بھی متعین نہیں کرسکا ہے۔ خوشی تھوڑی دیر کیلئے لطف اندوز ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ خوشی تو وہ ہے کہ انسان غم سے بھی حظ اُٹھائے۔ بیان میرٹھی نے کہا تھا:
لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے= ہماری آرزو ٹپکی لہو سے
یہ بھی پڑھئے: کیا حسینہ واجد گرفتار کی جائیں گی؟
یہ کیسے ہوا؟ کیونکر ہوا؟ آرزو لہو میں گھل جائے اور لہو اور آرزو یک جان ہوجائیں تب کہیں جاکر لہو سے آرزو ٹپک سکتی ہے ورنہ آرزو سے لہو ٹپکنا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ خوشی پر یاد آیا، جو شاید اس کالم میں پہلے بھی لکھا جاچکا ہے کہ جو لوگ یہی نہیں جانتے کہ خوشی کیا ہے وہ اس کے بعد کی کیفیت کو کیسے سمجھیں گے جو سرشاری کہلاتی ہے۔ لغت میں سرشاری کا معنی ہے خوشی سے لبریز ہونا، خوشی کا چھلک پڑنا، خوشی و سرمستی کی کیفیت میں چو‘ر ہونا۔ آج کے دور میں اس کیفیت سے کتنے لوگ دوچار ہوتے ہیں ؟ اس مضمون نگار کی رائے تو یہ ہے کہ جو لوگ لاکھوں روپے خرچ کرکے کسی مہنگی تفریح گاہ کا رُخ کرتے ہیں اور بزعم خود ’’اِنجوائے‘‘ کرتے ہیں اگر وہ خوشی اور سرشاری کا معنی جان لیں اور پھر یہ بھی اُن کی سمجھ میں آجائے کہ خوش ہونے کیلئے بیرونی یا خارجی وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اُن روپوں کو روئیں گے جو اُنہوں نے خوشی کی تلاش میں خرچ کئے۔
یہی معاملہ آسودگی کے ساتھ ہے۔ اب تو کسی کی زبان سے یہ لفظ سننے کو بھی نہیں ملتا۔ لغت میں آسودگی کا معنی ہے امن و امان، چین، آرام، راحت، دولت مندی، مرفہ الحالی، فارغ البالی۔ یہ بھی سرشاری جیسی کیفیت کا نام ہے اس فرق کے ساتھ کہ سرشاری تادیر قائم رہے یہ ضروری نہیں ہے مگر ایک بار آسودگی میسر آجائے تو تادیر قائم رہتی ہے۔ آدمی سرشاری کی کیفیت سے نکل سکتا ہے، آسودگی سے اتنی جلدی نہیں نکلتا۔ مگر کتنے ہیں جو جانتے ہیں کہ آسودگی کسے کہتے ہیں ؟ اہل اُردو میں جو لوگ واقف ہیں کہ آسودۂ خاک کسے کہتے ہیں وہ بھی آسودہ یا آسودگی کا معنی نہیں بتا پائینگے۔ اُردو کے ذخیرۂ الفاظ سے دوری اور محرومی بھی بہت سی کیفیات سے نابلد رکھتی ہے یا اُن کی تفہیم میں رخنہ ڈالتی ہے۔ اگر کوئی شخص مطالعہ کے دوران لفظ ’’سرشاری‘‘ یا ’’آسودگی‘‘ سے گزرے تو بہت ممکن ہے کہ ان الفاظ پر غور کرتا ہوا اِن کیفیات کے مغز تک پہنچے۔ جب اِن الفاظ سے کوئی سروکار ہی نہیں رہ گیا ہے تو اِن کیفیات سے سروکار کی آرزو یا جستجو کیسے پیدا ہوگی؟ ہر شخص انجوائے کرنے میں مبتلا ہے اور ہر بار انجوائمنٹ کیلئے خارجی محرکات کا مرہونِ منت ہے تو مجھے کہنے دیجپے کہ یہ عمل ایسا ہے جیسے کسی روتے بلکتے بچے کو کھلونے سے بہلانے کی کوشش کی جائے۔ وہ کھلونا دیکھ کر چند لمحوں کیلئے رونا بند کردیتا ہے مگر چونکہ کھلونا اس کی اصل ضرورت پوری نہیں کرسکا اس لئے وہ پھر رونے لگتا ہے۔ خوشی کی متلاشی اِس دُنیا کا آدمی بھی ایسا ہی ہے۔ وہ ’’سامانِ انجوائمنٹ‘‘ (اس ترکیب کیلئے معاف کیجئے گا) سے تھوڑی دیر بہل جاتا ہے، خوشی کا اظہار بھی کرتا ہے مگر کچھ دن کے بعد پھر دل بہلانے کا سامان تلاش کرنے لگتا ہے۔ بعض اوقات نئے دور کی کچھ کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے جن میں بتایا جاتا ہے کہ خوشی کیسے حاصل کی جائے یا خوش کیسے رہا جائے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی سانس لینے، ہنسنے، مسکرانے، رونے اور غذا یا پانی کو حلق سے اُتارنے کی تربیت لے۔ اس پس منظر میں غور فرمائیے کہ نئے دور کی بیماریاں مثلاً فرسٹریشن، اِسٹریس یا ڈپریشن، یہ سب اس لئے حملہ آور ہیں کہ ’’اندر کی دُنیا‘‘ پر محنت بند ہوگئی ہے اور باہر کی دُنیا غضبناک ہورہی ہے۔ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ باہر کی شے اندر آکر خوشی پیدا نہیں کرتی۔ اندر کا جذبہ باہر کی دُنیا کے حسن کے یا باہر کا حسن اندر کے جذبہ کے روبرو ہوتا ہے تو خوشی یوں پھوٹتی ہے جیسے کوئی عطر دان کھول دے۔