اب نریندر مودی کے ریٹائر ہونے کی جب بات آئی تو یہ سوال ہوا کہ پارٹی مودی کے بغیر کیا کام کرلے گی۔ حالیہ الیکشن میں بھی ساری دنیا کو یہ علم ہوا کہ مودی جی کا وہ چمتکار کہ کوئی ان کا نام لیتے ہی الیکشن جیت جاتا تھا اب کارگر نہیں رہا۔
EPAPER
Updated: April 15, 2025, 1:26 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
اب نریندر مودی کے ریٹائر ہونے کی جب بات آئی تو یہ سوال ہوا کہ پارٹی مودی کے بغیر کیا کام کرلے گی۔ حالیہ الیکشن میں بھی ساری دنیا کو یہ علم ہوا کہ مودی جی کا وہ چمتکار کہ کوئی ان کا نام لیتے ہی الیکشن جیت جاتا تھا اب کارگر نہیں رہا۔
پچھلے دنوں سے یہ خبر کچھ عام ہے کہ مبینہ طور پر اس سال ۱۷؍ستمبر کو نریندر مودی عملی سیاست سے تو نہیں لیکن عملی اقتدار سے خود کو محروم کرلیں گے، یاد رہے کہ ۱۷؍ستمبر شاید نریندر مودی کی سالگرہ کا دن بھی ہے۔ اس خبر کو ہم افواہ تو نہیں سمجھ سکتے کیو ں کہ خبر بہت عام ہے لیکن مصدقہ بھی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ پارٹی یا سرکار نے نہ تو اس کی کوئی تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید کی ہے۔اس خبر کے عام ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کا جواز خود نریندر مودی نے مہیا کیا تھا۔ یادرہے کہ۲۰۱۹ءکا الیکشن بے تحاشہ طور پر جیتنے کے بعد اب مودی کو کسی اور کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے یا انہیں کوئی اور نہیں چاہئے تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ نریندر مودی کو اس عہدے پر پہنچانے کیلئے لال کرشن اڈوانی کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔الیکشن کے بعد مودی کو نہ تو لال کرشن اڈوانی کی کوئی ضرورت تھی او رنہ ہی رام منوہر جوشی کی، حالانکہ دونوں کے دونوں بی جے پی میں کافی بااثر تھے۔یاد رہے کہ لال کرشن اڈوانی کی پارٹی میں موجودگی الیکشن کے بعد بھی برقرار رہی۔ پارٹی کے اندر بھی اور پارٹی کے باہر بھی ان کی عزت و تکریم کی جاتی تھی ۔ شاید نریندر مودی کو یہ بھی منظور نہیں تھا۔چنانچہ ہوا یہ کہ کسی جگہ جہاں اڈوانی بھی موجود تھے اور نریندر مودی بھی، نریندر مودی نے موجود لوگوں سے مصافحہ کیا ، جب وہ لال کرشن اڈوانی کے پاس سے گزرے تو اڈوانی نے ہاتھ جوڑ کر بہت ادب سے انہیں نمسکار کہا لیکن نریندر مودی نے نمسکار قبول کرنے کے بجائے صرف ان کی طرف دیکھا اورچپ چاپ آگے گزر گئے۔ ہندی بھاشا میں نمسکار کو اس طرح ردّ کرنے کو ترسکار بھی کہتے ہیں چنانچہ جب یہ بات ویڈیو کے ذریعہ لوگوں کے سامنے آئی تو انہیں خیال آیا کہ مودی نے اڈوانی کا ترسکار کیا تھا۔ اب آپ کو کچھ اور چیزیں بھی یاد دلادیں ۔
گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے یہ فرمایا تھا کہ ہر حاکم کو راج دھرم کا پالن کرنا چاہئے اور یہ بات انہوں نے کھل کر تو نہیں کہی لیکن ساری دنیا میں عام ہوگئی کہ واجپئی کو نریندر مودی کا رویہ بہت خوشگوار نہیں لگا تھا۔یہ بھی خبر تھی کہ ممکن ہے واجپئی نریندر مودی کو پارٹی سے ہٹا دیں ، لیکن بعد میں الیکشن کے قریب آتے آتے مودی کی شکل ایک مہیب شکل بن گئی۔ واجپئی اس کے خلاف تھے لیکن لال کرشن اڈوانی نے انہیں سمجھایا کہ اگر واجپئی نے نریندر مودی کا ترسکار کیا تو ملک کے خصوصاً شمالی ہند کے تمام ہندو ووٹ بی جے پی سے کٹ جائیں گے اس لئے انہیں مودی کی مخالفت میں بہت دور نہیں جانا چاہئےچنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ واجپئی کے ذریعہ راج دھرم کا پالن کی ہدایت دئے جانے کے بعدبھی اگر نریندر مودی اپنے عہدے پر قابض رہے تو اس کی وجہ اڈوانی کا ساتھ تھا۔
اب نریندر مودی کے ریٹائر ہونے کی جب بات آئی تو یہ سوال ہوا کہ پارٹی مودی کے بغیر کیا کام کرلے گی۔ حالیہ الیکشن میں بھی ساری دنیا کو یہ علم ہوا کہ مودی جی کا وہ چمتکار کہ کوئی ان کا نام لیتے ہی الیکشن جیت جاتا تھا اب کارگر نہیں رہا۔ یہ ہم نے حالیہ الیکشن میں بھی دیکھا کہ تقریباً بی جے پی کے ہر امیدوار نے نریندر مودی کا نام لینے کے ساتھ ساتھ ان کیلئے قسمیں بھی کھائیں لیکن عوام اس سے صرف اتنا ضرور محسور ہوئے کہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن گئی لیکن ایسی پارٹی نہیں بن سکی جو اپنے آپ حکومت بنالے۔ حالت ایسی تھی نریندر مودی بھی او ران کی سرکار بھی بیساکھیوں کے بغیر دو قدم بھی نہیں چل سکتی تھی ، یہ دو بیساکھیاں تیلگو دیشم کے لیڈر چندرا بابو نائیڈو اور بہار کے جے ڈی یو لیڈر نتیش کمار نے مہیا کی تھیں ۔ چنانچہ اب یہ سوال ہےکہ اگر مودی جی نے واقعی اپنی سالگرہ پر اقتدار سے محروم ہونے کا اعلان کردیا تو پارٹی کا کیا ہوگا؟
نریندر مودی کے بعد پارٹی میں دوسرا نام نتن گڈکری کا تھااو روہ نام بھی اس لئے تھا کہ مہاراشٹر میں ایک وقت ادھو ٹھاکرے نے یہ بھی کہا تھا اگر گڈکری چاہیں تو شیو سینا ان کی مدد کرسکتی ہے ، اس کا موقع تو ا بھی نہیں آیا لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ نتن گڈکری نے سہراب الدین شیخ کے معاملے میں امیت شاہ کو کافی دوڑا یا تھا، انہیں اپنے آفس سے باہر رکھا تھا اندر نہیں آنے دیا تھا۔ شیو سینا کو یہ بات معلوم تھی لیکن سوال یہ ہے کہ مہاراشٹر کے علاوہ بی جے پی کے اندر نتن گڈکری کی کتنی اہمیت ہے۔ کیا یو پی، بہار اور شمال کے دوسرے صوبوں میں کوئی گڈکری کو پہچانتا بھی ہے؟ اور کیا وہ پارٹی پر ویسا ہی جادو چلا سکتے ہیں جو نریندر مودی نے چلایا تھا۔ اس کا جواب نہیں اور ہرگز نہیں ہے۔ بی جے پی کی اپنی نوعیت بھی کچھ نہ کچھ بدل ضرور رہی ہے۔انہیں معلوم ہے کہ ہندو مسلم میں اختلاف کئے بغیر نریند رمودی نے جو جادو چلایا تھا اس میں اب جان نہیں رہی۔ ووٹر اب ہندو اور مسلم بن کر ووٹ نہیں دیتے بلکہ خالص ووٹر بن کر ووٹ دیتے ہیں اور ووٹر کے معاملات ہندو مسلم اختلاف ہوتےہی نہیں ۔ ووٹر اپنا، اپنے شہر کا اپنے صوبے کا مفاد دیکھتے ہیں اور اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرتے ہیں ۔چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار نے یہی کیا بھی تھا۔ بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہندو مسلم اختلاف کے علاوہ نہ اس کے پاس کوئی ایشو ہے او رنہ ہی کوئی ایشو رہے گا۔
یہ بھی پڑھئے: بوکر انعام کی شارٹ لسٹ اور کنڑ زبان کی ادیبہ بانو مشتاق
پارٹی کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہندو مسلم اختلافات کا کچھ ذکر ہے بھی تو وہ شمالی ہندوستانی خصوصاً یو پی میں ہے۔ یہاں بھی ہندو مسلم اختلاف بہت دور نہیں جاتا۔ یاد رہے کہ بی جے پی اپنے ووٹروں کو اب بھی یقین دلانا چاہتی ہے کہ وہ ہندو مسلم اختلافات کوہی اپنی سیاست کی جڑ سمجھتی ہے اور کوئی موقع ایسا نہیں جانے دیتے جسے پارٹی یہ سمجھ کر کہ وہ ان اختلافات سے کام لے سکتی ہے، اسے چھوڑ بھی سکتی ہے۔ مسلمانوں کے وقف بل کا معاملہ اس کی ایک مثال ہے۔ یہ بل اگر پاس ہو بھی گیا اور اگر ہوا بھی تو بھی اس کا نفاذ صوبوں کی سرکار پر ہوگا۔ دیدی نے پہلے ہی کہہ دیا کہ وہ بنگال میں اس بل کو نافذ نہیں کریں گی۔ رہا جنوبی ہندوستان کا سوال تو وہاں بھی اس بل کا کوئی زور نہیں ہے بلکہ تمل ناڈو میں بھی یہ اعلان ہوا ہے کہ چنئی اس بل کے حق میں نہیں ہے۔ چنانچہ مودی کے بغیر پارٹی اور سرکار کا کیا ہوگا سوالیہ نشانات کے نرغے میں ہے۔