بوکر پرائز، میک کانیل نامی کمپنی نے ۱۹۶۸ء میں شروع کیا تھا۔ پہلا بوکر پرائز ۱۹۶۹ء میں دیا گیا البتہ کنڑ زبان کیلئے یہ پہلا اعزاز ہے۔
EPAPER
Updated: April 14, 2025, 1:28 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai
بوکر پرائز، میک کانیل نامی کمپنی نے ۱۹۶۸ء میں شروع کیا تھا۔ پہلا بوکر پرائز ۱۹۶۹ء میں دیا گیا البتہ کنڑ زبان کیلئے یہ پہلا اعزاز ہے۔
۲۰۲۵ءکے بوکر پرائز کے لیے جن مصنفین کی کتابوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے ان میں کنڑ زبان کی ادبیہ بانو مشتاق کی کتاب ’’ہارٹ لیمپ‘‘ (چراغ دل) بھی شامل ہے۔ ان کا پورا نام’سیدہ خوشتربانو‘ہے۔ ہارٹ لیمپ میں ۱۲؍کہانیاں شامل ہیں ۔ کنڑ زبان میں یہ کہانیاں ۱۹۹۰ء سے ۲۰۲۳ء کے عرصہ میں مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکی ہیں ۔ بعد کو دیبا بھا ستھی نے ان کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا۔ کرناٹک ساہتیہ اکادیمی ایوارڈحاصل کرچکیں بانو مشتاق کے انگریزی میں ترجمہ شدہ افسانوی مجموعہ’’ہارٹ لیمپ‘‘میں ایک کہانی ایسی بھی ہے جو پیرس ریویو میں شائع ہو چکی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت اپنے ملک سے باہر بھی ہے۔ خود کو مکمل طور پر افسانہ نگاری اور تصنیفی سرگرمیوں کے حوالے کرنے سے پہلے انہوں نے ایک اخبار میں رپورٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں ۔ وہ آل انڈیا ریڈیو بنگلور سے بھی وابستہ رہیں اور وکالت کا پیشہ بھی اختیار کیا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سماجی سطح پر ایک سرگرم زندگی گزاری ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی بانو مشتاق نے اگر مساجد میں عورتوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تو مسلم طالبات کو حجاب کے ساتھ اسکول جانے کی حمایت بھی کی۔ بانو مشتاق کو سماجی سطح پر بائیکاٹ کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس وقت وہ ایک ایسی ادیبہ کے طور پر ہیں جنہیں ایک بڑا اعزازحاصل ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ بوکر پرائز کا اعلان ۲۰؍مئی کو لندن میں کیا جائیگا۔ وہ کنڑ زبان کی ایسی پہلی قلم کار ہیں جنہیں بوکر پرائز کے لئے شارٹ لسٹ کیا گیا ہے۔ کرناٹک میں ۱۹۴۸ء میں پیدا ہونے والی بانو مشتاق کی تعلیم کرناٹک کے ایک مشنری اسکول میں ہوئی تھی۔
بانو مشتاق نے یو گیندر سکند سے ایک مکالمہ (new age Islam.com) میں کہا ہے کہ انہیں ان کے والد بیٹی نہیں بلکہ بیٹا کہا کرتے تھے۔ جس وقت اُن کی والدہ کی شادی ہوئی ہے،ان کی عمر محض ۱۲؍ سال تھی۔۱۴؍سال کی عمر میں انہوں نے بانو مشتاق کو جنم دیا۔ شادی کے وقت والدہ اور والد کی عمر کیا تھی، اس کا ذکر کرنا ان کی ایک ایسی فکرمندی کا اظہار ہے جس کا تعلق معاشرے سے بہت گہرا ہے۔ ابتدا ہی سے بانو مشتاق کو زندگی کے مختلف معاملات کے سلسلے میں والد کی حمایت حاصل رہی۔
والد کے حوصلہ افزا رویے نے بانو مشتاق کو زندگی اور سماج کے تعلق سے ترقی پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا حوصلہ عطا کیا۔ اُن کے والد سینئر ہیلتھ انسپکٹرتھے، مختلف شہر وں میں ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ انٹرویو میں بانو مشتاق نے اپنے والد کے تعلق سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بہت کشادہ ذہن اور مشترکہ تہذیب کے حامی تھے۔ بانو مشتاق کے بقول ان کے خاندان میں تصوف کی روایت بھی رہی ہے۔انہوں نے انٹرویو میں یہ اطلاع بھی فراہم کی ہے کہ ان کے دادا ایک گاؤں کے قاضی تھے اور اُردو اسکول میں پڑھاتے تھے۔ بانو مشتاق چھ بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں ۔
مشتاق بانو کی زندگی اور ادبی زندگی کے درمیان بہت گہرا رشتہ ہے۔ کمال فن یہ ہے کہ اپنی زندگی کو فن کے سانچے میں کچھ اس طرح ڈھالا جائے کی یہ دوسروں کیلئے بھی اہم اور بامعنی ہو۔ عورتوں نے عورتوں کے مسائل کو اگر شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے تو اسے کسی اصطلاح کے بغیر بھی دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے خاص طور پر وہ اصطلاح جسے ہم تانیثی نقطہ نظر یا تانیثیت کا نام دیتے ہیں ۔ فرانسیسی مصنفہ اینی انراکس کو جب نوبیل پرائز دینے کا اعلان کیا گیا تو اس میں عورتوں کے مسائل کا خاصا ذکر تھا۔شادی کے بعد کی زندگی جن آزمائشوں سے گزرتی ہے اس کے بارے میں کوئی نئی بات کہنا بہت مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زندگی کے بارے میں ہر خاص و عام کچھ نہ کچھ جانتا اور محسوس کرتا ہے۔بانو مشتاق نے کس کی زندگی کے سیاق میں کہانی پیش کی ہے اگر اس بارے میں کچھ نہ بتایا جائے تو بھی یہ کہانی ایک حساس،مظلوم اور ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے والی عورت کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔
بانو مشتاق نے انٹرویو میں اپنی سسرال کا حال بھی بیان کیا ہے۔اُن کے سسرالی عزیز بہت کشادہ ذہن نہیں تھے مگر شوہر نے بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور سوچتا ہوا ذہن رکھنے والی بانو مشتاق کو ایک قلم کار کی زندگی گزارنے اور اس طرح سماجی منفعت کا ذریعہ بننے کی اجازت دی۔ مگر گھر کے لوگ اس بات کے لیے راضی نہیں تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سماجی سطح پر کوئی ایسی زندگی گزاری جائے جسے احتجاج اور ترقی پسندانہ رویے کا نام دیا جاتا ہے۔ آخر کار بانو مشتاق کو گھر سے نکلنا پڑا۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہاسن نام کے ایک قصبے میں منتقل ہو گئیں ۔ یہ وقت دونوں کے لیے بہت مشکل تھا۔ اُن کے شوہر نے گھڑی سازی کا کام بھی کیا جبکہ وہ خود گھر میں سلائی کا کام کرتی تھیں ۔ جب کچھ پیسے جمع ہو گئے تو گھڑی کی دکان کھول لی۔
یہ بھی پڑھ’ئے : شعبۂ مینوفیکچرنگ میں چینی بالادستی اور اس کی خود اعتمادی
بانو مشتاق کی تخلیقات اردو، ہندی،تمل اور ملیالم میں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔یہ تمام تفصیلات بتاتی ہیں کہ بانومشتاق کی کہانیوں کے مسائل کیا ہیں ۔شادی شدہ عورت کی زندگی روایتی طور پر وفاداری اور گھریلو زندگی سے وابستہ سمجھی جاتی ہے۔ ان کی کہانیوں کے اہم موضوعات کا رشتہ عورت کی ازدواجی زندگی سے ہے۔ ازدواجی زندگی کے مسائل کو عورت ہی کی ذات سے وابستہ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ مرد اِن مسائل کے ساتھ کہیں دور کھڑا دکھائی دیتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ جنہیں ہم ازدواجی زندگی کے مسائل کہتے ہیں ان کا براہ راست رشتہ مردوں سے ہے۔ بانو مشتاق نے پہلی اولاد کی ولادت کے بعد ان مسائل پر نئے سرے سے غور کرنا شروع کیا۔
یوں دیکھیں تو یہ کوئی اہم واقعہ نہیں مگر ایک خاتون کے قلم سے وجود میں آنے والی یہ کہانیاں دل کا چراغ بن گئی ہیں ۔ یہ مدھم اور تیز روشنی کب سے سینے میں روشن ہے۔ یہی وہ روشنی ہے جو سینے کے داغ کو دکھاتی بھی ہے اور روشن بھی کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ زمانہ ناول کا ہے اور ناول ہی اس وقت کے آشوب کو پیش کر سکتا ہے۔ کہانیاں بہت دور جا پڑی ہیں ۔ لیکن بانو مشتاق کی کہانیوں کے مجموعے کا شارٹ لسٹ کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ کہانیاں ابھی اتنی دور نہیں گئی ہیں جتنا کہ بتایا جا رہا ہے۔