جو پارٹی آزادی کے بعد ستر برسوں تک صوبے کی سیاست میں حاشئے پر ہو اکرتی تھی اس نے پچھلے چند برسوں میں بایاں محاذ اور کانگریس کا صفایا کرکے حزب اختلاف کے منصب کو اپنے نام کرلیا ہے۔
EPAPER
Updated: February 26, 2025, 1:28 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
جو پارٹی آزادی کے بعد ستر برسوں تک صوبے کی سیاست میں حاشئے پر ہو اکرتی تھی اس نے پچھلے چند برسوں میں بایاں محاذ اور کانگریس کا صفایا کرکے حزب اختلاف کے منصب کو اپنے نام کرلیا ہے۔
۲۷؍برسوں کے بعد دلی کا راج سنگھاسن واپس پانے کے بعد سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے حوصلے آسمان کی بلندیاں چھو رہے ہیں ۔ ہریانہ، مہاراشٹر اور اب دلی فتح کرنے کے بعد بی جے پی قیادت کو پورا اعتماد ہے کہ ان کے وجے رتھ کی اگلی منزل مغربی بنگال ہوگی۔ بنگال کے لیڈر حزب اختلاف سوبھیندو ادھیکاری نے دلی الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی کلکتہ میں یہ اعلان کردیا کہ ’’۲۰۲۶ء میں بنگال کی باری ہے۔‘‘
۲۰۱۴ء میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد نریندر مودی جی نے بھارت کو ’’کانگریس مکت‘‘ بنانے کا عہد کیا تھا۔ درحقیقت ان کا مشن صرف کانگریس کو ہی نہیں بلکہ تمام بی جے پی مخالف طاقتوں کو ملک کی سیاست میں غیر اہم اور غیر متعلق بنادینے کا تھا۔ ا ن کی یہ دیرینہ تمنا ہے کہ مرکز کے ساتھ ساتھ ملک کے سبھی یا بیشتر صوبوں میں بی جے پی کی حکومت ہو۔ اسی لئے بی جے پی کو عام آدمی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، سماج وادی پارٹی اور ترنمول کانگریس جیسی پارٹیوں سے بھی اتنی ہی عداوت ہے جتنی اسے کانگریس سے ہے۔جن صوبوں میں بی جے پی اقتدار حاصل کرنے کیلئے بیتاب تھی ان میں سر فہرست یہ تین صوبے تھے: مغربی بنگال، اڑیسہ اور دلی۔
۲۰۲۴ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے بیجو جنتا دل کو شکست دے کر اڑیسہ میں نوین پٹنائک کے ۲۴؍ سالہ اور ۲۰۲۵ء میں عام آدمی پارٹی کو ہراکر دلی میں اروند کیجریوال کے گیارہ سالہ راج پاٹ کا خاتمہ کردیا۔اب ۲۰۲۶ء میں بی جے پی کا عزم بنگال میں ممتا بنرجی کی پندرہ سالہ حکومت کا خاتمہ ہے کیونکہ جس علاقائی لیڈر نے ایک عرصے سے بی جے پی اور آر ایس ایس کی نیندیں حرام کررکھی ہیں وہ ہیں ممتا بنرجی اورجس صوبے کا اقتدار حاصل کرنے کے لئے مودی جی اور امیت شاہ بیتاب ہیں ہے وہ ہے مغربی بنگال۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ۲۰۱۷ء اور ۲۰۲۱ءکے اسمبلی انتخابات میں ایڑی چوٹی کا زور لگادینے کے باوجود بی جے پی ممتا کو ہلا نہ سکی لیکن پچھلے آٹھ برسوں میں اس نے بنگال میں اپنی طاقت میں بے پناہ اضافہ ضرور کرلیا ہے۔ ۲۰۱۱ء اسمبلی الیکشن میں بی جے پی ایک سیٹ بھی نہیں جیت پائی تھی اور اس کا ووٹ شیئر محض ۴؍فیصد تھا۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی سیٹوں اور ووٹوں کی تعداد میں زبردست اچھال آیا۔ بی جے پی کے حصے میں ۷۷؍ سیٹیں آئیں اور اس کا ووٹ شیئر بڑھ کر ۳۸؍فیصد ہوگیا۔دریں اثنا ۲۰۱۹ء لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی نے ۴۲؍ میں سے ۱۸؍ سیٹیں جیت لیں اور اس کا ووٹ شیئر ۴۰؍فیصد سے تجاوز کرگیا۔ ۲۰۱۱ء سے۲۰۲۱ء کے دس سالہ دورانیےمیں بی جے پی نے بنگال میں بایاں محاذ اور کانگریس کا تقریباً صفایا کردیا۔ بایاں محاذ اور کانگریس دونوں گزشتہ اسمبلی الیکشن میں اپنا کھاتہ تک نہیں کھول سکے۔
بنگال میں بی جے پی نے ایک گیم پلان کے تحت بتدریج اپنی زمین مضبوط کی ہے۔ جو پارٹی آزادی کے بعد ستر برسوں تک صوبے کی سیاست میں حاشئے پر ہو اکرتی تھی اس نے پچھلے سات آٹھ برسوں میں حزب اختلاف کے منصب کو اپنے نام کرلیا ہے۔ صوبے کی سیاست آج پوری طرح bipolarہوچکی ہے جہاں کسی تیسری پارٹی کی مشکل سے کوئی گنجائش بچی ہے اور یہ بلاشبہ بی جے پی کی ایک نمایاں کامیابی ہے۔ ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں گرچہ بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد ۱۸؍ سے گھٹ کر ۱۲؍ہوگئی تاہم اس کا ووٹ شیئر تقریباً ۳۹؍فیصد تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ پچھلے پانچ برسوں سے بی جے پی کو بنگال میں لگاتار دو کروڑ سے زیادہ ووٹ مل رہے ہیں ۔ پچھلے لوک سبھا الیکشن میں اسے د وکروڑ تیس لاکھ ووٹ ملے۔ مطلب یہ کہ اب بنگال میں بی جے پی کا ایک مضبوط ووٹ بینک تیار ہوچکا ہے۔ماضی میں بی جے پی کو عمومی طور پر صرف ہندی بولنے والوں کی حمایت حاصل ہوتی تھی لیکن اب اس کا حلقہ اثر بنگال کے کونے کونے تک پھیل گیا ہے۔ بی جے پی کی اس غیر معمولی ترقی میں آر ایس ایس نے اہم کردار ادا کیا ہے اور لگتا ہے کہ اس سو سال قدیم ہندو تنظیم نے صوبے میں پارٹی کو راج سنگھاسن تک پہنچانے کا بھی منصوبہ بنالیا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا کہ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت حال میں بنگال میں دس دنوں تک قیام پزیر تھے۔ انہوں نے بردوان میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ہندوؤں سے متحد ہونے کی اپیل بھی کی۔
بی جے پی کا آئی ٹی سیل بھی منظم طریقے سے ہندوؤں کو پولرائز کرنے کے اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ بی جے پی بنگلہ دیش کے ہندوؤں پر ہوئے حملوں کو سیاسی اور انتخابی ہتھیارکے طور پر استعمال کرنے کا پلان بناچکی ہے۔ امیت مالویہ کا یہ حالیہ بیان ’’اب یہ بنگال کے ہندوؤں کو فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کی طرح یہاں بھی ظلم کا شکار ہوں گے اور یا اٹھ کھڑے ہوں گے، لڑیں گے اور ممتا بنرجی کو شکست دیں گے‘‘صوبے کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کے بی جے پی کے مذموم ایجنڈہ کا عکاس ہے
یہ بھی پڑھئے: امریکہ اور یورپ میں دوریاں
ممتا بنرجی کو بی جے پی کے ناپاک عزائم کا ادراک بھی ہوگیا ہے اور وہ ان سے فکر مند بھی ہیں ۔ممتاکی عوامی مقبولیت ان کا سب سے بڑا اثاثہ تھی لیکن پچھلے سال آر جی کار اسپتال کی خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور مرڈر کے بعداس مقبولیت کو بڑا دھچکا لگا۔ اس سانحے پر سول سوسائٹی میں ممتا بنرجی حکومت کے خلاف پھیلی بدظنی اور برہمی کو بھی بی جے پی الیکشن میں کیش کروانے کی پوری کوشش کریگی۔ ممتا نے دعویٰ تویہ کیا ہے کہ بنگال دلی نہیں ہے یہاں بی جے پی کی دال نہیں گلے گی۔ لیکن انہیں آنے والے خطرے کی آگہی ہوگئی ہے۔ اگلے انتخابات ابھی تیرہ ماہ دور ہیں لیکن ممتا ابھی سے بی جے پی کے ممکنہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے اور عوام کا دل جیتنے کیلئے لائحہ عمل مرتب کرنے میں مصروف ہوگئی ہیں ۔ ۲۷؍ فروری کو دیدی کی صدارت میں ترنمول کانگریس کے اراکین اسمبلی اور پارٹی کے اہم لیڈروں کی بے حد اہم میٹنگ ہونے والی ہے جس میں انتخابی روڈ میپ تیار کیا جائیگا۔
پس نوشت: اقتداردائمی نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی سیاست میں کوئی لیڈر یا کوئی پارٹی ناقابل تسخیر ہونے کا دعویٰ کرسکتی ہے۔ممتا بنرجی بلاشبہ مضبوط اور مقبول لیڈرہیں جن کا پانچ دہائیوں پر محیط درخشاں سیاسی کریئر رہا ہے۔ ۳۴؍سالہ بایاں محاذ حکومت کو اکھاڑ پھینکنا ان کا عظیم کارنامہ تھا۔ پچھلے ۱۴؍ برسوں سے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہنا بھی قابل ستائش ہے۔ لیکن قارئین کو یہ یاد دلانا چاہوں گا کہ پچھلے اسمبلی انتخابات میں گرچہ ترنمول کانگریس کو دوتہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی خود ممتا بنرجی کو سوبھیندو ادھیکاری کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔