ٹرمپ نے کہا ہے کہ زیلنسکی کوئی مقبول لیڈر نہیں ہیں بلکہ ایک بہت اچھے کامیڈین بھی ہیں اور یوکرین کا ٹی وی اس کی گواہی بھی دیتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک زیلنسکی یوکرین میں دوبارہ الیکشن نہیں کروالیتے تب تک یوکرین اور امریکہ میں کوئی بات نہیں ہوگی۔ انہوں نے زیلنسکی کویوکرین کا صدر نہیں بلکہ ڈکٹیٹر کہا ہے۔
امریکہ کا ذکر آئے تو سب سے پہلے خیال یوکرین کی جنگ کی طرف جاتا ہے، یہ بات اب سبھی جانتے ہیں کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ بار بار یہ کہتے تھے کہ امریکہ نے روس اور یوکرین کی جنگ میں یوکرین کا ساتھ دے کر بہت بڑی غلطی کی اور وہ اس غلطی کا ازالہ چاہتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ بھی تھی ، ٹرمپ کا یہ ماننا تھا کہ جوبائیڈن کی انتظامیہ نے یہ ایک غلط فیصلہ لیا ہے۔ ٹرمپ خالصتاً ایک بقال ہیں ، انہیں ہمہ وقت یہ فکر رہتی ہے کہ اگر دنیا میں امریکہ کی عظمت اور قبولیت قائم رکھنی ہے تو امریکہ کو مالی طور پر اتنا مضبوط رہنا پڑے گا کہ دنیا اس عظمت کو مان لے۔ جب جوبائیڈن کا ذکر آتا ہے تو یہ خیال بھی فوراً آتا ہے کہ ٹرمپ اپنے الیکشن کے پہلے سے اب تک جوبائیڈن کی ہر پالیسی کے خلاف رہے ہیں ۔جیسا کہ آپ کو معلوم ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کا ایڈمنسٹریشن پوری طرح جوبائیڈن کے ساتھ ہے اور اسی لئے ٹرمپ نے یہ الزام لگایا تھا کہ اس الیکشن سے پہلے امریکہ میں جو انتخابات ہوئے تھے ، امریکی انتظامیہ (ڈیپ اسٹیٹ) نے جوبائیڈن کا بہت ساتھ دیا تھا، انہیں یہ بھی خیال تھا کہ ان پر ہونے والا جان لیوا حملہ بھی جوبائیڈن کی ذمہ داری تھی۔ اس کے علاوہ ان پر جو جھوٹے مقدمات لگائے گئےتھے اس کی جواب داری بھی جوبائیڈن کے سر ہے اور اب یہ معلوم ہورہا ہے کہ ٹرمپ کے ان بیانات میں حقیقت کا بھی شائبہ ہے او ریہ بات اب روز بہ روز کھلتی جارہی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم امریکہ اور یورپ کے تعلقات کا ذکر کریں چند اور باتیں بھی جان لینا بہت ضروری ہے۔ سب یہ کہہ رہے تھے کہ ٹرمپ وہائٹ ہاؤس پہنچنے سے پہلے ہی یوکرین کی جنگ بند کرادیں گے لیکن جیسا کہ ہم نے کہا کہ کسی جنگ کا شروع کرنا جتنا دشوار ہوتا ہے اس کا بند کرنا بھی اس سے بھی زیادہ دشوار ہوتا ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا تھا کہ ٹرمپ وہائٹ ہاؤس پہنچنےسے پہلے یہ اعلان کردیتے کہ وہ جنگ بند کررہے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یوکرین میں امریکی فوجی براہ راست تعلق نہیں رکھتے تھے۔ وہاں روس کے خلاف جن ممالک نے یوکرین کاساتھ دیا تھا، ان میں ناٹو کے تمام ممالک شامل تھے ۔
اب یہ دیکھئے کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے یہ کہا تھا کہ یوکرین کے فوجی کسی بھی طور روس کا غلبہ منظور نہیں کریں گے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں اب تک ساڑھے آٹھ لاکھ انسان ہلاک ہوچکے ہیں ۔یور پ کے مختلف سروے کرنے والے یہ بتاتے ہیں کہ جنگ کے بعد سے اب تک یوکرین میں مردوں کی تعداد اگر ایک سو پینتیس ہے تو عورتیں ایک ہی سو ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ کتنی مہیب تھی۔ ٹرمپ نے اب کہا ہے کہ زیلنسکی نے یہ بھی جھوٹ بولا تھا کہ وہ یوکرین اور روس کی جنگ کی وجہ سے یوکرین کے باشندوں میں بہت پاپولر ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ایک سروے کے مطابق زیلنسکی کی یوکرین میں مقبولیت صرف چار فیصد ہی رہ گئی ہے۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ زیلنسکی کوئی مقبول لیڈر نہیں ہیں بلکہ ایک بہت اچھے کامیڈین بھی ہیں اور یوکرین کا ٹی وی اس کی گواہی بھی دیتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک زیلنسکی یوکرین میں دوبارہ الیکشن نہیں کروالیتے تب تک یوکرین اور امریکہ میں کوئی بات نہیں ہوگی۔ انہوں نے زیلنسکی کویوکرین کا صدر نہیں بلکہ ڈکٹیٹر کہا ہے۔اب یہ اتفاق کہ جس ملک کی امریکہ اور یور پ اتنی مدد کررہے تھے اس کے سربراہ کا یہ انجام ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے: عظیم مجاہد آزادی گنیش شنکر وِدیارتھی کی جیل ڈائری
امریکہ اور یورپ میں مفاہمت اور اتحاد کا ایک پرانا ریکارڈ ہے۔ یاد رکھئے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے افغانستان کی جنگ تک یورپ اور امریکہ ہر قدم پر ساتھ رہے ہیں ، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ناٹو ممالک یہ جانتے تھے امریکہ سے ملنے والی مدد صرف جنگ کے لئے نہیں ہے ، اس سے یورپی ممالک کی معیشت کو بھی بہت فائدہ پہنچتا تھا کیونکہ دنیا یہ جانتی ہے کہ یورپی ممالک امریکہ کی اس مدد کو جنگ پر تو کم لگاتے تھے اپنے دیش کی معیشت پر زیادہ خرچ کرتے تھے، یورپی ممالک کو یہ بھی معلوم تھا کہ جب کہیں جنگ ہوتی ہے تو امریکہ کی یہ امداد اور بڑھ جاتی ہے، اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی جنگ ہوتی رہے۔ اب بتائیے کوریا، ویت نام اور دوسرےممالک سے یورپ کا کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا لیکن انہوں نے وہا ں اپنی فوجیں بھی بھیجیں اور اس سے خوب فائدہ بھی اٹھایا۔ ٹرمپ یہ سب دیکھ رہے تھے اسی لئے وہ جنگ جلد سے جلد بند کرانا چاہتے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے اینٹی وار ہونے کا روپ بھی رچایا۔ یور پی ممالک جانتے تھے کہ اگر یہ جنگ بند ہوگئی تو ان کی معیشتیں گھاٹے میں پڑ جائیں گی۔ ٹرمپ ایک بار پھر یہ سب دیکھ رہے تھے اور اسی لئے انہو ں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ جنگ نہیں کریں گے۔ یورپ کے لئے یہ کوئی خبر نہیں تھی بلکہ ایک دلدوز سانحہ تھا، وہ جانتے تھے کہ امریکی امداد کے بند ہونے سے ان کی بگڑی ہوئی معیشتیں اوربگڑ جائیں گی۔ ابھی حال ہی میں ٹرمپ نے میونخ میں ہونے والی ایک کانفرنس میں اپنی حکومت کا ایک اہم ذمہ دار بھیجا تھا اور اسے بتا دیا تھا کہ اس کانفرنس میں اسے کیا کرنا ہے۔ کانفرنس میں اس مندوب نے تقریر شروع کی تو ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا لیکن امریکی افسر نے مسکرا کر یہ جواب دیا کہ انہیں امید ہے کہ یہ تالیاں آخری نہیں ہوں گی لیکن ان کی انیس منٹ کی تقریر میں ہال میں تالیوں کی ایک گونج بھی نہیں سنائی دی۔امریکی مندوب نے یہ بھی کہا کہ اب امریکہ ناٹو کی ہر جنگ میں شریک نہیں ہوگا اور ناٹو کو ملنے والی ساری امداد بند کی جارہی ہے۔ یہ یورپ اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی دوریو ں کی تازہ مثال ہے۔اب ایک اور بہت مزےدار بات سن لیجئے۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے حکمراں محمد سلمان نے ٹرمپ اور پوتن کو ریاض آکر بات چیت کرنے اور صلح سمجھوتے پر دستخط کرنے کی دعوت دی ۔ یہ دونوں تو نہیں آئے لیکن دونوں ملک کے انتہائی اہم آفیسر ریاض پہنچے اور انہوں نے آپس میں بات چیت کی ۔ ٹرمپ نے اب کہا ہے کہ امریکہ اور روس جنگ کے معاملے میں ایک ہی صفحہ پر ہیں ، ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اب سعودی عرب میں امریکی اور روسیوں کی ملاقات کیا بہت دلچسپ بات نہیں ہے؟ (نہ جہاں میں مجھ کو اماں ملی،جو اماں ملی تو کہاں ملی)۔ ہم اس سلسلے میں مزید تفصیل جاننے کے بعد آپ کو بھی بتائیں گے۔ روس اور امریکہ نظریاتی طورپر ایک دوسرے سے قطبوں کی طرح دور رہے ہیں لیکن جب امن کا خیال آیا تو انہیں ایک بار پھر سعودی عرب یاد آیا ، وہ سعودی عرب جو پہلے اسرائیل کے خلاف نہیں تھا مگر اب ہے اور بہت شدت سے ہے۔